نئی دہلی: قومی دارالحکومت دہلی کے مہرولی میں قدیمی آخوندجی مسجد، درگاہ، یتیم خانہ اور قبرستان کو بلڈوزر سے مسمار کرنے کی کاروائی کے خلاف 'شہر پیپلز فورم فور دہلی سٹی' کے زیر اہتمام پریس کلب میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس میں مختلف سماجی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں سمیت مورخین اور وکلا نے شرکت کر انہدامی کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
پلاننگ کمیشن آف انڈیا کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید نے کہا کہ قومی دارالحکومت دہلی کے محرولی میں 600 سالہ قدیمی مسجد کو بغیر کسی پیشگی نوٹس کے تجاوزات کے نام پر بلڈوزر سے گرا دیا گیا۔ اسی طرح سے ہلدوانی میں بھی کاروائی کو انجام دیا گیا۔
پریس کانفرنس کے دوران کہا گیا کہ ہم شہر کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کو نشانہ بنا کر مسمار کرنے کے سلسلے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ سرکار کا یہ دعوی بالکل غلط ہے کہ آخوندجی مسجد کسی سرکاری زمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی تھی، دراصل سچائی یہ ہے کہ ڈی ڈی اے کے وجود میں انے سے پہلے یہ مسجد اس مقام پر قائم ہے جو تغلق دور حکومت کی بنی ہوئی ہے۔ دستاویزات کے مطابق بہادر شاہ ظفر نے 1853 اور 54 میں اس مسجد کی مرمت کروائی تھی۔ یہ مسجد کم سے کم 500 سال پرانی ہے۔ یہاں مقامی لوگ عبادت کرتے تھے۔ دہلی میں مساجد اور درگاہوں پر اس طرح کے حملے ہمارے زندہ ورثے پر ایک غیر ذمہ دارانہ حملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'مسلم نوجوان ملک کے لیے اہم کردار ادا کریں، نفرت کا جواب محبت سے دیں'
مقررین کے مطابق حالیہ مہینوں میں کئی بستیاں، دکانوں، بازاروں اور مذہبی مقامات پر انتظامیہ کی جانب سے بلڈوزر کی کاروائی کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ بند واقعات شہریوں کی زندگی، روزگار اور محفوظ رہائش کے حق کے خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ ہم مسماری راج کے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں جس نے ملک بھر میں نئی اور پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ ہپلدوانی میں ہونے والے انتظامی کارروائی اور اس کے بعد ہونے والے دل دہلا دینے والے نتائج سے ہمیں بہت دکھ اور تشویش ہے۔ ہم تاریخی اور زندہ ورثے کی تباہی کو روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔