شملہ : ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں آج اس وقت حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے جب سنجولی مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے پولیس کی جانب سے لگائے گئے بریکیٹس توڑ کر مسجد کی جانب بڑھنے لگے اور پتھراؤ شروع کردیا۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کےلئے لاٹھی چارج کیا۔ اس دوران ایک سیکوریٹی اہلکار زخمی ہوگیا۔ تفصیلات کے مطابق ہزاروں مظاہرین ڈھلی ٹنل پہنچے اور یہاں پولیس کی جانب سے لگائے گئے بیریکیٹس کو ہٹاکر سنجولی مسجد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی۔
پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد بھیڑ نے شملہ پولیس پر پتھراؤ کردیا۔ پولیس نے بھی کارروائی کرتے ہوئے بھیڑ پر لاٹھی چارج کیا۔ اس میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا ہے۔ پولیس کی جانب سے شہر میں شیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے تھے تاہم مظاہرین نے بیریکٹس کو توڑ کر مسجد کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی جس کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوئے۔
قبل ازیں پولیس نے علاقہ میں سیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے تھے۔ گنجان آبادی والے علاقہ سنجولی میں واقع پانچ منزلہ مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوتوا تنظیموں کے احتجاج کے پیش نظر کسی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کےلئے بڑے پیمانہ پر پولیس تعینات کیا گیا ہے۔ شملہ انتظامیہ نے احتیاطی طور پر علاقہ میں 2023 کی بھارتی شہری تحفظ سنہتا کی دفعہ 163 نافذ کردیا جس کے تحت بغیر اجازت کے پانچ سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے اور مہلک ہتھیار و ہتھیار رکھنے پر پابندی عائد رہے گی۔ حکام نے بتایا کہ سنجولی کے علاقے میں کوئیک رسپانس ٹیم کے ساتھ ایک ہزار سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ شرپسندوں کے داخلہ کو روکنے کے لیے شہر کے تمام داخلی راستوں پر پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کے ساتھ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ امن برقرار رکھنے کے لیے انتظامیہ نے سنجولی اور قریبی علاقوں میں دوپہر تک کسی بھی قسم کے احتجاج اور جلوس کے انعقاد پر پابندی عائد کردی ہے۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے مسجد میں غیرمجاز تعمیرات کو منہدم کرنے اور ریاست میں آنے والے بیرونی افراد کے رجسٹریشن کا مطالبہ کررہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو نے کہا کہ لوگوں کو پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن کسی بھی برادری سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس معاملہ کو سیاسی رنگ نہ دیں اور امن و امان برقرار رکھیں۔
شملہ میں ہندو تنظیموں کی جانب سے سنجولی مسجد کو لیکر کئی دنوں سے احتجاج کیا جارہا ہے۔ بی جے پی و دیگر تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے ڈھانچہ کو منہدم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وقف بورڈ نے غیرقانونی طور پر زمین پر قبضہ کیا ہے اور اس پر مسجد تعمیر کی ہے۔ احتجاجی مطالبہ کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی کی جانچ کی جائے، کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ ان میں سے کچھ روہنگیا یا بنگلہ دیشی ہوسکتے ہیں۔ شملہ میونسپل کارپوریشن کمشنر کی عدالت نے سنیچر کو مسجد کے غیرقانونی حصے سے متعلق معاملے کی سماعت کی۔ آئندہ سماعت 5 اکتوبر کو مقرر ہے۔
شہری ادارہ کی طرف سے پیش ہوئے راہل شرما نے میڈیا کو بتایا کہ ’یہ غیرقانونی تعمیرات کا معاملہ ہے۔ اس میں وقف بورڈ کو فریق بنایا گیا ہے، اس معاملہ میں ہم نے جواب دٓحل کردیا ہے‘۔ وہیں وقف بورڈ نے اپنے جواب میں کہا کہ جس زمین پر مسجد تعمیر ہے وہ اس کی ملکیت ہے اور توسیعی تعمیر قواعد کے مطابق کی گئی تھی۔ تاہم اس سلسلہ میں کوئی دستاویزات فراہم نہ کرنے کی اطلاعات ہیں۔