گیا: بہار کی 13 کروڑ سے زیادہ آبادی میں سے تقریباً 17.7 فیصد مسلمان ہیں اور اب اس اعداد و شمار کے تعلق سے سیاسی حصے داری کی مانگ بڑھنے لگی ہے، کیونکہ بہار میں ذات کی بناء پر ہوئی گنتی کے معاملے پر مختلف سیاسی پارٹیوں جس میں آرجے ڈی، کانگریس اور جے ڈی یو کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس کا ایک بڑا مقصد یہ بھی کہ جنکی تعداد جتنی ہوگی انکی سیاسی حصے داری اتنی ہوگی لیکن راجیہ سبھا کے انتخاب میں مسلم قیادت محروم ہوگئی۔ لیکن اب اس تعلق سے 2024 پارلیمانی انتخابات کے بہانے مسلم قیادت والی کچھ معروف اور غیر معروف پارٹیوں کی طرف سے سیدھے طورپر عظیم اتحاد کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے، دراصل اس بار بہار میں مسلم قیادت کی سیاست میں حصہ داری کا معاملہ اس وقت سے اور مزید بڑھ گیا جب راجیہ سبھا کے لیے 6 نامزدگی میں ایک بھی مسلم رہنما کو شامل نہیں کیاگیا۔ حالانکہ بہار سے راجیہ سبھا کی ان 6 سیٹوں میں 3 سیٹیں این ڈی اے اور 3 عظیم اتحاد کے پاس ہونگی۔ ان میں بی جے پی نے 2 امیدوار، 1 جے ڈی یو نے نامزدگی کا پرچہ داخل کرایا ہے جبکہ عظیم اتحاد کی طرف سے 2 سیٹوں پر آر جے ڈی اور 1 سیٹ پر کانگریس نے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے جنکا راجیہ سبھا جانا یقینی ہوگیا ہے۔ لیکن اب اس معاملے میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے لے کر وہ سبھی پارٹیاں جو دونوں اتحاد ' این ڈی اے اور انڈیا اتحاد ' میں شامل نہیں ہیں، انکے رہنماؤں کی طرف سے بہار کےعظیم اتحاد کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تین روزہ دورے پر بہار پہنچے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی نے بھی بہار میں مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری حاشیے پر ہونے کا الزام آر جے ڈی اور کانگریس پر لگایا ہےجبکہ مگدھ کمشنری کے اضلاع میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کرنے میں لگی ایک سیاسی پارٹی ' لوک پریہ سمتا پارٹی' کے قومی صدر وسیم نئیر انصاری نے بھی عظیم اتحاد کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ وسیم نیر انصاری کا کہنا ہے کہ چونکہ سیاسی طور پر مسلمانوں کا ووٹ عظیم اتحاد کی پارٹیوں کو ہی برسوں سے مل رہا ہے اس وجہ سے سوال انہی پارٹیوں سے ہونا لازمی ہے کہ سیاست میں ہماری قیادت کہاں ہے ؟ لالو پرساد یادو کے' ایم وائی اتحاد ' کے بعد تیجسوی یادو نے اپنی پارٹی کو' اے ٹو زیڈ' کی پارٹی ہونے کا اعلان کیا لیکن جب آر جے ڈی اتحاد کی اکثریت گزشتہ 12 فروری کو فلور ٹیسٹ میں ثابت کرنے کا معاملہ پیش آیا تو پوری ایمانداری کے ساتھ مسلم اراکین اسمبلی آرجے ڈی اتحاد کے ساتھ کھڑے رہے لیکن وہی اے ٹو زیڈ والے اراکین میں آر جے ڈی کے تین رکن اسمبلی نے ساتھ نہیں دیا۔ جس میں ایک تیجسوی یادو کی برادری کا بھی ایم ایل اے شامل ہے باوجود کہ جب سیاسی حصہ داری دینے کی بات ابھی راجیہ سبھا میں آئی تو مسلم رہنما پر اعتماد نہ کر ہریانہ کے ایک غیر سیاسی شخص کو جن کی قربت لالو کنبہ سے ہے انہیں امیدوار بنایا گیا۔ جبکہ سیاسی حصے داری اور انصاف کا تقاضہ یہی تھاکہ سنجے یادو کے بجائےکسی مسلم رہنما کو ہی امیدوار بنانا چاہیے تھا کیونکہ وہ سیٹ اشفاق کریم کی مدت ختم ہونے پر خالی ہوئی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
مسلم قیادت حاشیے پر ہے
وسیم نیئر انصاری نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران سیاسی حصے داری پر کہاکہ بہار میں صرف استحصال ہواہے۔ سیکولرازم کے نام پر ان پارٹیوں کو مسلمانوں کا 95 فیصد ووٹ ملتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو بہار میں 16 راجیہ سبھا کی نشستیں ہیں, ان میں صرف 1 مسلم فیاض احمد آر جے ڈی سے راجیہ کے سبھا ابھی رکن ہیں، 40 لوگ سبھا کی سیٹیں ہیں جن میں صرف دو مسلم رہنما رکن پارلیمنٹ ہیں جن میں ایک این ڈی اے' لوجپا' کی طرف سے جبکہ دوسرا مہاگٹھ بندھن' کانگریس' کی طرف سے ہے۔ جبکہ 243 اسمبلی کی سیٹوں میں محض 19 اراکین اسمبلی مسلم ہیں ،جبکہ بہار میں قانون ساز کونسل کی 75 نشستیں ہیں جن میں صرف 7 مسلم ایم ایل سی ہیں اور یہ 7 بھی دونوں اتحاد ' این ڈی اے اور عظیم اتحاد 'کی پارٹیوں سے ہیں جبکہ ان میں ایک ٹیچر حلقہ سے پرشانت کشور کے حمایت یافتہ آزاد رکن قانون ساز کونسل ہیں۔ اگر مجموعی طورپر بہار کی سیاست میں مسلمانوں کی حصے داری کی فیصد نکالی جائے تو اس میں 6 سے 7 فیصد کے درمیان ہی ہماری نمائندگی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور بہار اسمبلی و قانون ساز کونسل میں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری جو آبادی بہار میں ذات کی بناء پر ہوئی گنتی میں واضح کی گئی ہے اس میں 17 پوائنٹ7 فیصد کے قریب بتائی گئی ہے۔
حالانکہ انہوں نے اس کو بھی غلط اعدادوشمار پر مبنی فیصد قرار دیا اور کہاکہ یہ اور بات ہے کہ اس فیصد سے بھی ہم لوگ مطمئن نہیں ہیں کیونکہ مسلمانوں کی کئی برادریوں کو مسلم برادریوں کے ساتھ گنتی میں شامل نہیں کیا گیا ہے جیسے کہ کلال برادری مثال ہے جسکو ہندو برادریوں کی ایک برادری کلوار کے ساتھ گنا گیا ہے۔ اگر ان سبھی کو جوڑ کر دیکھا جائے تو ہماری آبادی مجموعی طور پر 20 فیصد کے قریب ہوگی لیکن سیاسی حصے داری میں مسلمانوں کی 10 فیصد بھی حصے داری نہیں ہے۔ قریب 20 فیصد والی آبادی کی اسمبلی میں نمائندگی 19 ایم ایل اے کے طور پر ہے جبکہ 14 فیصد والی آبادی یادو برادری کے 52 ایم ایل اے ہیں ، دو فیصد اور ایک فیصد برادری والوں کی بھی سیاسی حصے داری انکی فیصد سے کئی گنا زیادہ ہیں، ایسے میں سماجی انصاف کا دعوہ کہاں صحیح ہے۔
وفاداری کے باوجود حناشہاب کو نظرانداز کیا گیا
وسیم نیئر انصاری نے کہاکہ آرجے ڈی میں عام مسلم کارکنان اور رہنماوں کو حاشے پر رکھا جاتاہے۔ بہار میں کون نہیں جانتا ہے کہ مرحوم شہاب الدین آرجے ڈی کو اس مقام تک پہنچانے میں نمایاں خدمات انجام دیں، زندگی کے آخری لمحے تک انہوں نے لالو پرساد یادو کے ساتھ رہے لیکن انکے انتقال کے بعد انکے اہل خانہ کو دودھ میں مکھی طرح نکال دیا گیا۔ حناشہاب کو راجیہ سبھا امیدوار بنا دیاجاتو یہ کہا جا سکتا تھا کہ مسلم حصے داری کے تعلق سے آرجے ڈی فکر مند ہے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے جس سے پورے بہار میں مایوسی ہے۔
سترہ فیصد ملے حصے داری
وسیم نیئر انصاری نے کہاکہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں سبھی پارٹیاں کررہی ہیں۔ انڈیا اتحاد ابھی سے بی جے پی اور دیگر تنظیموں کا خوف مسلمانوں کو دیکھا رہاہے لیکن اسکے رہنماء سیاسی حصے داری کی بات نہیں کررہے ہیں۔ اگر 2024 میں 17 فیصد ٹکٹ نہیں ملی تو مسلمان اس بار ضرور غور کریں گے۔ مسلمانوں نے یہ صرف بیڑا نہیں اٹھا رکھا ہے کہ ووٹ انہی کو دیں۔ ہماری سیاسی حصے داری اور نمائندگی ہوگی تبھی ہماری ترقی ممکن ہے اور یہ پارٹیاں یہی نہیں چاہتی ہیں کہ ہم اپنے حق حقوق کی باتیں کریں۔ انہوں نے کہاکہ مسلم نوجوان اس بات کو سمجھ رہاہے اور 2024 میں آپکو بہتر کرنا ہے تو حصےداری دینی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ اسی طرح بہار میں دیکھا جائے تو جے ڈی یو بھی اسی دھڑے پر چل رہی ہے۔ این ڈی اے کے حکومت بنانے پر ایک بھی مسلم رکن کو وزیر نہیں بنایا ۔ابھی نتیش کابینہ مسلم مکت کابینہ ہے۔