علی گڑھ: ریاست اترپردیش کے ضلع علی گڑھ میں واقع عالمی اہمیت کی حامل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے خلیق احمد نظامی مرکز کے زیر اہتمام ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع "ہم جنس پرستی عصری اسلام میں غیر معیاری رویے کا سامنا" تھا۔ مذکورہ بالا موضوع پر توسیعی لیکچر ایس ایم مکرم جہاں جونیئر ریسرچ فیلو، مرکز برائے تقابلی مذاہب اور تہذیب، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی نے پیش کیا۔
ایس ایم مکرم جہاں نے اپنے مقالے کے دوران کہا کہ اسلام کے تناظر میں ہم جنس پرستی مکمل طور پر حرام ہے اور اسلام ہم جنس پرستی سے انسان کو باز رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی امریکہ سے سب سے پہلے ہم جنس پرستی کو سیاسی شے ملنا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ اسے عام کرنا شروع کیا جبکہ ان کے بھی مذاہب میں ہم جنس پرستی جائز نہیں ہے۔ ایس ایم مکرم جہاں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہم جنس پرستی کو جائز کرنے کے لیے اسلام اور قرآن کے انٹرپٹیشن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ مائناریٹی کو نظر انداز کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے لیکن ہم جنس پرستی کو جائز بنانے کے لیے جو دلیل دی جارہی ہے وہ ناکافی ہے اور ان کی دلیل سے ٹکراؤ بھی ہورہا ہے۔
اس طرح سے ہم جنس پرست جو افراد ہیں یا ان کی خواہشات کو زیادہ سے زیادہ انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں لیکن جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ چاہے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، سلفی، اثناعشری ہوں تمام ائمہ کے نزدیک ہم جنس پرستی حرام ہی ہے۔ ایس ایم مکرم نے کہا کہ مغربی ممالک ہوں یا خواہ انڈیا ہی کیوں نہ ہو اب زیادہ تر ممالک میں سیکولر جمہوریت ہے اس لیے جہاں ہم جنس پرست کے حقوق کی بات ہوگی وہاں ہیومن رائٹز ہوگا اس کا دین و اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہم انڈیا کے تناظر میں بات کریں تو کامن سول کوڈ بھی ہم جنس پرستی کے ساتھ ٹکراؤ پیدا کرتا ہے اور عدالت عظمیٰ نے تو ہم جنس پرستی کے برعکس فیصلہ سنایا ہے لیکن بقیہ اسلام کے تمام احکامات مثلاً نکاح اور طلاق وغیرہ یونیوفارم سول کوڈ سے براہ راست تضاد رکھتے ہیں۔
ہم جنس پرستی کے تناظر میں ایس ایم مکرم جہاں نے مزید کہا کہ دین میں سے ہی ایک ایسی انڈر اسٹنڈنگ پیدا کی جائے اور علماء کو کوئی ایسا راستہ یا گنجائش نکالنی چاہیے کہ کس طرح مذکورہ بالا موضوع عمل میں لاسکتے ہیں اور کیا نہیں لاسکتے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کے کچھ بنیادی اصول ہیں جس پر سمجھوتہ ممکن ہی نہیں مثلاً توحید وغیرہ لیکن دیگر کچھ چیزیں مثلاً شادی، طلاق وغیرہ پر علماء کچھ رعایت دے سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
- اے ایم یو ویمنس کالج مسلم خواتین کی تعلیم میں اہم رول ادا کر رہا ہے
- اے ایم یو میں دماغی صحت کی اہمیت پر تربیتی پروگرام کا انعقاد
انھوں نے مزید کہا کہ ہم جنس پرستی اسلامی نقطہ نظر سے جائز تو نہیں ہے لیکن اگر دیگر کچھ ممالک کا ذکر کریں مثلاً ترکی وغیرہ جہاں ہم جنس پرستی کو جائز کیا گیا ہے وہاں بھی مذاہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی نظریہ سے ہی جائز کیا گیا ہے۔ پروگرام کی نظامت قران سوسائٹی کے صدر محمد سلمان غوری نے ادا کی، کلمات تشکر ادیبہ پروین نے پیش کیا۔ پروگرام میں ڈپارٹمنٹ کے اساتذہ ڈاکٹر ایوب اکرم ڈاکٹر مبین سلیم اور کثیر تعداد میں طلبہ موجود رہے۔