بنگلورو: وزیراعظم کے اکونومک ایڈوائزری کونسل نے اقلیتوں کی حیثیت کا مطالعہ کرنے کا عالمی تجزیہ کیا اور یہ دکھانے اور ثابت کرنے کوشش کی کہ ہندوستان مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ مقام ہے ۔وہ ہندو اکثریت کا شکار نہیں ہیں۔ اس کونسل کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ہندو اکثریت کی آبادی کم ہو رہی ہے۔
اس کونسل کے مطابق 1950 میں مسلمانوں کی آبادی کا حصہ 8.5% سے 9% تھا اور اس وقت یہ 14% ہے، اس لیے چاول 9% سے 14% تک ہے۔ اس کے مقابلے ہندو اکثریت کی آبادی میں 7.8 فیصد کمی آئی ہے۔
اس سلسلے میں معروف دانشور پروفیسر شیو سندر کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا تضاد یہ ظاہر کرنا ہے کہ مودی حکومت نہ صرف اقلیتوں کے لیے سازگار ہے بلکہ وہ ترقی کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ کو آر ایس ایس اور بی جے پی فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارنے کے ذریعہ اپنے سیاسی فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کر رہی ہے، جبکہ مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کا وجود ہی خطرے میں ہے۔
حکومتوں کی مختلف کمیشن رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے شیو سندر نے کہا کہ مسلمانوں کی حالات، مودی حکومت سے پہلے بھی ایس سی / ایس ٹی کے مقابلے بدتر تھے اور اب بھی کچھ خاص بہتر نہیں ہی۔ آبادی میں اضافے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ خواتین میں تعلیمی و سماجی بیداری اس میں اضافے یا کمی کا سبب ہے۔
شیو سندر کا کہنا ہے کہ تمام زرعی معاشروں میں خواہ ان کا مذہب کوئی بھی ہو بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی لیکن جیسے جیسے تعلیم کے تنوع اور معاشی حالت میں اضافہ ہوا اور تمام برادریوں میں خواتین کے جسم پر کنٹرول بڑھتا گیا، شرح پیدائش میں کمی آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بنگلورو میں منعقدہ بزنس نیٹ ورکنگ میٹنگ میں آنٹرپرنیورز کی رہنمائی - Mulakhat e Karobar Meeting
انہوں نے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ کیرالہ میں مسلم خواتین کی شرح افزائش اتر پردیش کی ہندو خواتین کے مقابلے میں 2 سے بھی کم ہے جو کہ 3.5 ہے، اس لیے یہ مذہب کا کام نہیں ہے اور یہ بالکل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ معاشرے میں سماجی اور تعلیمی طور پر کس طرح حصہ لیتے ہیں۔ اور اپنے جسموں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔