دہلی: شائستہ رفعت نے دہلی میں ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور قتل کی بڑھتی ہوئی تعداد پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ سماجی عدم مساوات، سیکورٹی میں لاپرواہی اور امتیازی سلوک نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ خاص طور پر حاشیے پر کھڑی خواتین، دلتوں، آدیواسیوں، اقلیتوں اور معذور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کا معاملہ تو اور بھی سنگین ہے۔ ابھی حال ہی میں کولکتہ (مغربی بنگال) میں ’آر جی کر اسپتال‘ میں ایک لیڈی ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کا معاملہ سامنے آیا، گوپال پور (بہار) میں ایک 14 سالہ دلت لڑکی کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے بعد اس کا قتل، اودھم سنگھ نگر ( اترا کھنڈ) میں ایک مسلم نرس کے ساتھ عصمت دری کے بعد اس کا بہیمانہ قتل، اور بدلا پور (مہاراشٹر) کے ایک اسکول میں دو لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات، ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے تئیں ذہنیت اور رویے پر سنجیدگی سے غورو فکرکرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو اور نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ میں تو صرف وہ اعداد بتائے گئے ہیں جن کی رپورٹنگ ہوئی ہے، نہ جانے کتنے معاملے درج ہی نہیں ہوئے ہوں گے ۔ خواتین کو انصاف پانے کے لیے کتنی جدو جہد کرنی پڑتی ہے؟ اس کا اندازہ بلقیس بانو کیس سے لگایا جا سکتا ہے جس کے ساتھ 2002 کے گجرات قتل عام میں اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی۔ اس نے انصاف پانے کے لیے سخت جدو جہد کی اور طویل لڑائی لڑی۔
محترمہ رفعت النساء نے کہا کہ ’’ خواتین پر مظالم کی ذہنیت ایک وبا کی طرح پھیل چکی ہے جو ہماری قوم کے امن و سکون اور ترقی کو متاثر کررہی ہے۔ اس لعنت کی بنیادی وجہ ہے بے بہا آزادی کے نام پر اخلاقی اقدار کا زوال، معاشرے میں اخلاقی اقدار کا فقدان، عورتوں کو اشیاء کی مانند سمجھنا، جنسی استحصال اور بدسلوکی، فحاشیت،غیر ازدواجی تعلقات، شراب و منشیات کا بڑھتا استعمال، وغیرہ جیسے مسائل ہراسانی اور استحصال کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن، اسقاط حمل، جنسی تشدد اورعصمت دری میں اضافہ کے علاوہ خاندانی اکائی میں ٹوٹ پھوٹ اور بے حیائی کا عام ہوجانا معاشرے کے اخلاقی تانے بانے کو تیزی سے ختم کررہا ہے۔ مزید برآں، فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی سیاست کا بڑھتا ہوا اثر، بعض برادریوں اور ذاتوں کو ہیچ سمجھنا اور ان پر غلبہ و دبدبہ بنائے رکھنے کی خواہش نے صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے۔ مجرموں اور ملزموں کو سیاسی و مادی مفاد حاصل کرنے کے لیے ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ ان کو سخت سزا دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند شعبہ خواتین ستمبر 2024 میں ایک ماہ کی طویل ملک گیر مہم شروع کرے گی۔ اس مہم کا تھیم ہے ’’ اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن ‘‘۔ اس مہم کا مقصد لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا اور انہیں بتانا کہ حقیقی آزادی کیا ہے۔ محترمہ شائستہ رفعت نیشنل سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ’’ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان اخلاقی اقدار پر عمل کرکے ہی حقیقی زندگی اور پائیدار آزادی حاصل کرسکتا ہے۔ اس مہم کا مقصد بلا تفریق ذات برادری، رنگ و نسل، جنس و مذہب اور خطہ و علاقہ سب کے لیے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ آزادی کو یقینی بنانا ہے۔ اس مہم کے دوران قومی، ریاستی، ضلعی اور علاقائی سطح پر ماہرین تعلیم، مشیران، وکلاء، مذہبی اسکالرز اور کمیونٹی لیڈروں پر مشتمل افراد کے ساتھ مل کر بیداری پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ طلباء اور نوجوانوں کو حقیقی آزادی اور اخلاقی اقدار سے روشناس کرانے کے لیے کیمپس میں خصوصی پروگرام منعقد کیے جائیں گے مشترکہ اخلاقی اقدار کو عوامی بحث میں لانے کے لیے مختلف مذاہب کے اسکالرز کو شامل کرکے خصوصی پروگرامس منعقد کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: