ETV Bharat / state

سی اے اے ملک کی سالمیت کو کمزور کرنے والا قانون: چودھری حیدر علی باغبان

CAA is a law that undermines the integrity of the country: ضلع گلبرگہ وقف مشاورتی کمیٹی کے نائب چیئرمین چودھری حیدر علی باغبان نے کہا کہ سی اے اے ملک کی سالمیت کو کمزور کرنے والا قانون ہے۔ باغبان نے کہا کہ سی اے اے ملک مخالف، دستور مخالف اور ملک کی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا قانون ہے۔

CAA is a law that undermines the integrity of the country
CAA is a law that undermines the integrity of the country
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 20, 2024, 12:50 PM IST

گلبرگہ: گلبرگہ کے ممتاز سماجی جہدکار و ضلعی وقف مشاورتی کمیٹی کے نائب چیئرمین چودھری حیدر علی باغبان نے سی اے اے کو دیش مخالف، آئین مخالف اور دیش کی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا قانون قرار دیا۔ اور اسے دیش کے لیے ناقابل قبول قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کا مقصد واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس کا راست نشانہ مسلمان ہیں، کیونکہ سی اے اے کو این آر سی اور این پی آر سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خود ہوم منسٹر امت شاہ نے بھی ان تینوں کو جوڑ کر کرونالوجی بتا چکے ہیں۔ چودھری حیدر علی باغبان نے اس پورے کھیل کے پیچھے ایک بڑی سازش ہونے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت کو شک کے دائرے میں لا کر فارین ٹریبونل میں ان کے خلاف مقدمہ چلا کر انھیں درانداز ثابت کر رفیوجی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی مسلمانوں کو ان کے ہی وطن میں بے وطن کرنے کی بڑی گہری سازش ہو رہی ہے۔ ملک بھر میں جب این آر سی ہوگا تو سیکشن 6A کے تحت ملک کے اکثریتی طبقہ کو شہریت مل جائے گی۔ تاہم مسلمانوں کے خلاف فارین ٹریبونل میں مقدمہ چلے گا اور انھیں غیر ملکی درانداز ثابت کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو سیاسی حاشیہ پر ڈھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کے اس قانون کے خلاف کئی ایک مسلم لیڈروں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم سیکولر لیڈران، این جی اوز اور ادارے بھی خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی اس پر خدشات ظاہر کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود اقتدار کے نشہ میں چور مودی حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔ ان خدشات کو رد کرنا تو دور کی بات خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین ہند پر حلف اٹھانے والی حکومت آج آئین کی روح کے منافی کا م کر رہی ہے اور اس کو اپنا بڑا کارنامہ قرار دے رہی ہے، جو کہ افسوسناک بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی اے اے سے صرف مسلمان متاثر نہیں ہوں گے بلکہ پورا دیش متاثر ہو گا۔ اس کی عمل آوری کے بعد سے ملک کے داخلی مسائل بالخصوص بے روزگاری، غربت میں اضافہ ہوگا۔ ملک کے روبرو مستقبل میں کئی ایک سنگین چیلنجس ابھر کر سامنے آئیں گے۔ جس سے ملک میں داخلی خلفشار بڑھ سکتا ہے۔
چودھری حیدر علی باغبان نے اس معاملہ میں صدر جمہوریہ ہند سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انھوں نے سپریم کورٹ سے بھی گزارش کی کہ اس معاملہ میں زیر التواء تمام عرضیوں کی جلد سے جلد سماعت کریں اور حقائق و دلائل کی بنیادوں پر فیصلہ دے کر ملک کے نظام عدلیہ پر عوام کے اٹوٹ اعتماد کو بحال کریں۔ چودھری حیدر علی باغبان کا کہنا ہے کہ یہ قانون ملک کے سیکولر مزاج کے عین مغائر ہے کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ ملک کا آئین انسانوں کے درمیان مذہب کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا، اس کے باوجود مسلمانوں سے نفرت کی خاطر مودی حکومت یہ قانون نافذ کرنے جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر مودی حکومت کو پڑوسی ممالک کی اقلیتی آبادی کے تعلق سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل میں ان کی حمایت میں آواز اٹھائے۔ پی ایم مودی خود کو وشوا گرو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، تو ایسے میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ ملک میں آج بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بیروزگار ہیں۔ روزگار کے لیے غیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر جنگ زدہ اسرائیل میں جا کر مزدوری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب جب کہ مودی حکومت غیر ملکیوں کو ہندوستانی شہریت دینے جا رہی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ ان غیر ملکیوں کو روزگار کیسے ملے گا۔ ملک کے اصل باشندے ہی جب کہ بے روزگار ہیں تو غیر ملکی افراد کہاں سے روزگار جٹا پائیں گے۔
چودھری حیدر علی باغبان کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پڑوسی تینوں ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ اُن ممالک کی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں۔ ایسے میں اگر ان میں سے نصف بھی ہندوستان کا رخ کرتی ہیں تو یہ تعداد ایک کروڑ سے زائد ہو سکتی ہے۔ ایسے میں ان ایک کروڑ لوگوں کے لیے مودی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ آنے والے ایک کروڑ لوگوں کے لیے روزگار اور رہائش کے تعلق سے مودی حکومت کے پاس کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ ایسے میں اگر بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے ایک کروڑ لوگ ہندوستان میں داخل ہوں گے یہ تو وطن عزیز کی معیشت پر بوجھ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان ایک کروڑ لوگوں کی رہائش اور روزگار کا انتظام کرنا درد سر ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے تحت پڑوسی ممالک کے شہریوں کو ہندوستانی شہریت دے کر مودی حکومت ایک خاموش طوفان کو دعوت دے رہی ہے۔ اس سے ملک کی داخلی سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ جرائم میں ملوث غیر ملکیوں کی شناخت کرنا، قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کے لیے مشکل ہوگا۔ سماجی جہد کار کا کہنا ہے کہ اب بھی دار الحکومت دہلی میں بڑی بڑی جھگی چھونپڑیوں والے سلم علاقوں میں غیر ملکی آباد ہیں، اب جب کہ مزید غیر ملکیوں کو جب بھارت میں پناہ دی جائے گی تو ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح سلم بستیوں جھگی جھونپڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یہ ملک کی معیشت پر بوجھ بنیں گے۔ بھارت کے وسائل پر قبضہ کریں گے۔ ہمارے کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کریں گے۔ ہمارے نوجوانوں کی نوکریوں پر قبضہ کریں گے۔

چودھری حیدر علی باغبان کا کہنا ہے کہ بات یہی ختم نہیں ہوں گی۔ ان کی نسلیں بھی جب ہندوستان میں ہی آباد ہو جائیں گی تو مستقبل کی ہندوستان کی نسلوں کی حق تلفی کریں گی۔ کسی بھی زاویے سے یہ قانون ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے اس کو جلد سے جلد واپس لیا جانا چاہیے۔ چودھری حیدر علی باغبان نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ اس نئے قانون سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں نے ماضی میں اس سے سخت حالات دیکھے ہیں اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی مسلمانوں کو اپنے افکار اور شعار کے ساتھ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔

گلبرگہ: گلبرگہ کے ممتاز سماجی جہدکار و ضلعی وقف مشاورتی کمیٹی کے نائب چیئرمین چودھری حیدر علی باغبان نے سی اے اے کو دیش مخالف، آئین مخالف اور دیش کی سالمیت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا قانون قرار دیا۔ اور اسے دیش کے لیے ناقابل قبول قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون کا مقصد واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس کا راست نشانہ مسلمان ہیں، کیونکہ سی اے اے کو این آر سی اور این پی آر سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ خود ہوم منسٹر امت شاہ نے بھی ان تینوں کو جوڑ کر کرونالوجی بتا چکے ہیں۔ چودھری حیدر علی باغبان نے اس پورے کھیل کے پیچھے ایک بڑی سازش ہونے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے ذریعہ مسلمانوں کی شہریت کو شک کے دائرے میں لا کر فارین ٹریبونل میں ان کے خلاف مقدمہ چلا کر انھیں درانداز ثابت کر رفیوجی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یعنی مسلمانوں کو ان کے ہی وطن میں بے وطن کرنے کی بڑی گہری سازش ہو رہی ہے۔ ملک بھر میں جب این آر سی ہوگا تو سیکشن 6A کے تحت ملک کے اکثریتی طبقہ کو شہریت مل جائے گی۔ تاہم مسلمانوں کے خلاف فارین ٹریبونل میں مقدمہ چلے گا اور انھیں غیر ملکی درانداز ثابت کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ اس قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو سیاسی حاشیہ پر ڈھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کے اس قانون کے خلاف کئی ایک مسلم لیڈروں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم سیکولر لیڈران، این جی اوز اور ادارے بھی خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی اس پر خدشات ظاہر کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود اقتدار کے نشہ میں چور مودی حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے۔ ان خدشات کو رد کرنا تو دور کی بات خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین ہند پر حلف اٹھانے والی حکومت آج آئین کی روح کے منافی کا م کر رہی ہے اور اس کو اپنا بڑا کارنامہ قرار دے رہی ہے، جو کہ افسوسناک بات ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سی اے اے سے صرف مسلمان متاثر نہیں ہوں گے بلکہ پورا دیش متاثر ہو گا۔ اس کی عمل آوری کے بعد سے ملک کے داخلی مسائل بالخصوص بے روزگاری، غربت میں اضافہ ہوگا۔ ملک کے روبرو مستقبل میں کئی ایک سنگین چیلنجس ابھر کر سامنے آئیں گے۔ جس سے ملک میں داخلی خلفشار بڑھ سکتا ہے۔
چودھری حیدر علی باغبان نے اس معاملہ میں صدر جمہوریہ ہند سے مداخلت کی اپیل کی ہے اور اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انھوں نے سپریم کورٹ سے بھی گزارش کی کہ اس معاملہ میں زیر التواء تمام عرضیوں کی جلد سے جلد سماعت کریں اور حقائق و دلائل کی بنیادوں پر فیصلہ دے کر ملک کے نظام عدلیہ پر عوام کے اٹوٹ اعتماد کو بحال کریں۔ چودھری حیدر علی باغبان کا کہنا ہے کہ یہ قانون ملک کے سیکولر مزاج کے عین مغائر ہے کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ ملک کا آئین انسانوں کے درمیان مذہب کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا، اس کے باوجود مسلمانوں سے نفرت کی خاطر مودی حکومت یہ قانون نافذ کرنے جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر مودی حکومت کو پڑوسی ممالک کی اقلیتی آبادی کے تعلق سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل میں ان کی حمایت میں آواز اٹھائے۔ پی ایم مودی خود کو وشوا گرو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں، تو ایسے میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے پڑوسی ممالک کے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ ملک میں آج بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بیروزگار ہیں۔ روزگار کے لیے غیر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر جنگ زدہ اسرائیل میں جا کر مزدوری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب جب کہ مودی حکومت غیر ملکیوں کو ہندوستانی شہریت دینے جا رہی ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ ان غیر ملکیوں کو روزگار کیسے ملے گا۔ ملک کے اصل باشندے ہی جب کہ بے روزگار ہیں تو غیر ملکی افراد کہاں سے روزگار جٹا پائیں گے۔
چودھری حیدر علی باغبان کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پڑوسی تینوں ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ اُن ممالک کی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں۔ ایسے میں اگر ان میں سے نصف بھی ہندوستان کا رخ کرتی ہیں تو یہ تعداد ایک کروڑ سے زائد ہو سکتی ہے۔ ایسے میں ان ایک کروڑ لوگوں کے لیے مودی حکومت کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ آنے والے ایک کروڑ لوگوں کے لیے روزگار اور رہائش کے تعلق سے مودی حکومت کے پاس کوئی پلاننگ نہیں ہے۔ ایسے میں اگر بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے ایک کروڑ لوگ ہندوستان میں داخل ہوں گے یہ تو وطن عزیز کی معیشت پر بوجھ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان ایک کروڑ لوگوں کی رہائش اور روزگار کا انتظام کرنا درد سر ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سی اے اے کے تحت پڑوسی ممالک کے شہریوں کو ہندوستانی شہریت دے کر مودی حکومت ایک خاموش طوفان کو دعوت دے رہی ہے۔ اس سے ملک کی داخلی سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ جرائم میں ملوث غیر ملکیوں کی شناخت کرنا، قانون کا نفاذ کرنے والی ایجنسیوں کے لیے مشکل ہوگا۔ سماجی جہد کار کا کہنا ہے کہ اب بھی دار الحکومت دہلی میں بڑی بڑی جھگی چھونپڑیوں والے سلم علاقوں میں غیر ملکی آباد ہیں، اب جب کہ مزید غیر ملکیوں کو جب بھارت میں پناہ دی جائے گی تو ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح سلم بستیوں جھگی جھونپڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ یہ ملک کی معیشت پر بوجھ بنیں گے۔ بھارت کے وسائل پر قبضہ کریں گے۔ ہمارے کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کریں گے۔ ہمارے نوجوانوں کی نوکریوں پر قبضہ کریں گے۔

چودھری حیدر علی باغبان کا کہنا ہے کہ بات یہی ختم نہیں ہوں گی۔ ان کی نسلیں بھی جب ہندوستان میں ہی آباد ہو جائیں گی تو مستقبل کی ہندوستان کی نسلوں کی حق تلفی کریں گی۔ کسی بھی زاویے سے یہ قانون ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے اس کو جلد سے جلد واپس لیا جانا چاہیے۔ چودھری حیدر علی باغبان نے مسلمانوں سے بھی اپیل کی کہ اس نئے قانون سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں نے ماضی میں اس سے سخت حالات دیکھے ہیں اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی مسلمانوں کو اپنے افکار اور شعار کے ساتھ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.