نئی دہلی: سپریم کورٹ کی سات ججوں کی آئینی بنچ نے جمعہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ سے متعلق معاملہ میں چار الگ الگ فیصلے سنائے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آئین ہند کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتی درجہ کی حقدار ہے۔ سات ججوں کی بنچ کی سربراہی کر رہے سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ نے اپنے اور جسٹس سنجیو کھنہ، جے بی پارڈی والا، اور منوج مشرا کے فیصلہ کو اکثریتی قرار دیا جبکہ جسٹس سوریہ کانت، دیپانکر دتا اور ستیش چندر شرما نے اس معاملے میں اختلافی فیصلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے 4-3 کی اکثریت سے اپنا فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ چار مختلف فیصلے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں کہا گیا کہ کوئی بھی مذہبی طبقہ ادارہ قائم کر سکتا ہے۔ لیکن وہ ادارے کی انتظامیہ کی نگرانی نہیں کر سکتا۔ قبل ازیں الہ آباد ہائی کورٹ نے 2006 میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ عدالتمیں فیصلہ میں کہا تھا کہ 1920 میں ایک شاہی قانون سازی کے ذریعے قائم کردہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔
یہ مسئلہ، جو نصف صدی سے زیادہ پرانا ہے، ایک بار سپریم کورٹ کے سامنے اس وقت آیا جب پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ اے ایم یو اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ عدالت نے 1967 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ 1920 کا حوالہ دیا تھا، جس کے ذریعہ یونیورسٹی قائم کی گئی تھی، فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو نہ تو مسلم کمیونٹی کے ذریعہ قائم کی گئی ہے اور نہ ہی اس کا انتظام کیا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 30 (1) کے تحت اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے ایک شرط ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یتی نرسنگھانند کے خلاف ایٹہ اور علیگڑھ میں احتجاجی مظاہرہ
اسی طرح الہ آباد ہائی کورٹ نے ریزرویشن پالیسی اور 1981 کی ترمیم کو ختم کر دیا تھا جس کے بعد اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔