گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا کے ایک ہندو شخص نے روزہ رکھ کر ہولی منائی۔ ان کا گذشتہ نو برسوں سے رمضان کا روزہ رکھنے کا معمول ہے۔ یہ مثال گیا شہر کے بنگلہ استھان محلہ کے رہنے والے امردیپ کمار سنہا نے پیش کی ہے۔ امر دیپ کمار سنہا نے کہا سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ کے لیے گزشتہ نو برسوں سے رمضان کا وہ روزہ رکھ رہے ہیں۔ صبح سویرے سحری کے لیے اٹھتا ہے اور پھر شام کو روزہ افطار کرتے ہیں۔ زیادہ تر وہ اپنے مسلم دوستوں کے ساتھ ہی افطار کرتے ہیں۔
چونکہ اس بار ہولی تہوار رمضان کے دوران ہی آیا، اس وجہ سے انہوں نے اپنے تہوار کو بھی عقیدت کے ساتھ منایا اور گذشتہ آٹھ برسوں سے روزہ رکھنے کی روایت کو بھی ٹوٹنے نہیں دیا۔ امر دیپ نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ابھی شہر گیا سے باہر اپنے رشتے دار کے یہاں ہیں۔ لیکن وہ روزہ کو اسی عقیدت کے ساتھ رکھ رہے ہیں جیسے گذشتہ آٹھ برسوں سے رکھتے آرہے ہیں۔
امر دیپ کے روزہ رکھنے کے پیچھے بھی دلچسپ کہانی ہے۔ امر دیپ کا ایک مسلم دوست چھوٹو جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اسے روزہ رکھتے ہوئے دیکھ کر ہی امر دیپ کو روزہ رکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ امر دیپ نے کہا کہ روزے میں ان کی گہری عقیدت ہے۔ کئی مشکلات سے دوچار ہونے کا سلسلہ بند ہوا ہے۔ پوچھے جانے پر کیا اپنے مسلم دوست کی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے اب وہ روزہ رکھتے ہیں جس کے جواب میں امر دیپ نے کہا کہ بالکل ایسا نہیں ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ دوست کے مشورے پر روزہ رکھنا شروع کیا تاہم اس میں ان کی اپنی مرضی تھی اور اب تو روزے میں ان عقیدت مزید گہری ہوگئی ہے۔ روزے سے قلبی سکون میسر ہوتا ہے۔
- گنگاجمنی تہذیب برقرار رکھنے کی کوشش
ضلع گیا کے امردیپ کمار سنہا گذشتہ 9 برسوں سے روزے کا اہمتام کرکے بھارت کی گنگا جمنی تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی انوکھی مثال پیش قائم کیے ہوئے ہے۔ گیا کا یہ ہندو امردیپ مسلمانوں کے عظیم اور معتبرک مہینہ رمضان کا روزہ رکھ رہا ہے۔ امرجیت کا مانناہے کہ ماہ رمضان میں اتحاد و بھائی چارے کی ثقافت دوبالا ہوجاتی ہے۔ اگرہم افطار پارٹی کرسکتے ہیں تو پھر روزہ کیوں نہیں رکھ سکتے؟
دیکھا جاتا ہے کہ ہر برس بلا لحاظ مذہب وملت دعوت افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، ہندو مسلم سکھ عیسائی جنہیں بھی مدعو کیا جاتا ہے وہ افطار پارٹی میں شریک ہوتے ہیں، لیکن کیا کسی نے اس روزے کے خاصیت اہمیت اور اسکی افادیت پر غور کیا ہے، طبی و سائنسی طور پر بھی روزہ انسانوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
دوسری اہم چیز کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری سانجھی وراثت کلچر ہے تو پھر کلچر میں یہ کیوں نہیں؟ کہ ہم ایک دوسرے کے تہواروں کا احترام کریں، اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکا بڑا فائدہ ہوگا۔ دوسرے مذہب اور اس کے ماننے والوں کے تئیں آپ کا نظریہ صاف ہوگا، دل میں نفرت رنجش عداوت نہیں ہوگی۔
امردیپ کمار کہتے ہیں کہ ہرسال روزہ رکھ کر افطار اور سحری کرنے سے انہیں اوران کے خاندان کو کافی روحانی سکون حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ افراد خاندان ان کے اس جذبے کی نا صرف قدر کہتے ہیں بلکہ افطاری اور سحری کا بھی معقول انتظام کرتے ہیں۔ بلکہ انکے بچے تو سحری میں اٹھانے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امردیپ کے ہندو مسلم دوستوں کا بھی ساتھ ملتاہے، وہ بھی اس کے اس جذبے کا احترام کرتے ہیں اور ساتھ میں ملکر افطار کرتے ہیں۔
- روزے سے مشکلات کا حل
امردیپ نے کہاکہ انہوں نے پہلی مرتبہ روزہ اسوقت رکھا جب وہ کسی پریشانی میں تھے، اچانک رمضان میں اپنے مسلم دوستوں کو دیکھ کر خیال آیا کہ وہ بھی روزہ رکھیں گے۔ شاید کہ اسکی برکت سے ان کی مصیبت پریشانی دور ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ دل میں منت رکھ کرروزہ رکھا، لیکن یقین مانیے کہ وہ پریشانی چند ایام میں دور ہوگئی اور وہ خوشحالی کی طرف بڑھنے لگے۔ یہ ان کی آستھا کا معاملہ ہے اس لیے کوئی دوسرا شخص ہندو ہو یا مسلم کسی نے سامنے سے مداخلت نہیں کی ہے۔
پیچھے میں کیا نظریہ ہے یہ کہنا مشکل ہے لیکن سبھی سامنے سے تعریف کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ کہ ہم کسی کی تعریف یا اچھا کہلانے کے لیے روزہ نہیں رکھا۔ عقیدت ہوگئی تو روزہ شروع کیا اب تو میری زندگی کا حصہ ہوگیا ہے جب تک زندگی اور صحت ہے روزہ رکھیں گے۔ کیونکہ روزہ سے ان کو فائدہ ہوا او روزہ کی حالت میں ساری روایتوں اور فرائض کو انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اگر نظریہ ٹھیک ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، گزشتہ برس ہی روزہ کے دوران نوراتری ہوئی تھی۔ اس میں بھی وہ روزہ میں نوراتری کے دوران پوجا بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے۔ جبکہ اس برس ہولی آئی تو رنگ عبیر بھی لگایا اور روزہ بھی رکھا۔ امردیپ کو جاننے والے اور اس کے مسلم دوستوں میں ایک محمد شاہ بھی کہتے ہیں کہ امردیپ کا یہ عمل گنگاجمنی تہذیب کی مثال ہے امردیپ تو اپنے فائدہ کے لیے روزہ رکھتے ہیں۔
لیکن مذہبی ٹھکداروں اور شدت پسندوں کے لیے یہ ایک طمانچہ ہے کہ آپ جتنا چاہیں ہمیں لڑوانے کی کوشش کریں، لیکن ہم قومی یکجہتی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھیں گے اور معاشرے میں امن قائم کریں گے۔ امردیپ نے ہولی جیسے تہوار میں بھی روزہ رکھ کر ہمیں بڑا پیغام دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: گیا: چوڑیاں بنا کر خواتین خود کفیل بن رہی ہیں
امردیپ شہر کے بنگلہ استھان محلے میں رہتے ہیں اس محلہ میں مسلم آبادی نہیں ہے، کچھ دوری پر مسلمانوں کی بڑی آبادی کے محلے ہیں۔ حالانکہ امردیپ کے دوستوں میں مسلم دوستوں کی طویل فہرست ہے۔ شہر کے کریم گنج کا رہنے والا چھوٹو انکا بے حد خاص دوست تھا اور اسی کو دیکھ کر اسنے روزے رکھنے کی شروعات کی ۔ چھوٹو کا 6 برس قبل انتقال ہوچکا ہے لیکن آج بھی وہ اپنے دوست کو یاد ہوکر جذباتی ہوجاتا ہے۔ امردیپ کمار سنہا نے کہاکہ دنیا میں انسانیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ مذہب کوئی بھی ہو عقیدت اپنی ہوتی ہے۔ سبھی کا احترام کریں تو نفرت ختم ہوگی اور شر پسند اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔