بھوپال: نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے چیئرمین پرینک کاننگو نے جمعہ کو مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت سے کہا کہ وہ مدرسوں میں پڑھنے والے ہندو بچوں کو عام اسکولوں میں بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسلامی ادارے حق تعلیم (آر ٹی ای) قانون کے تحت نہیں آتے۔
پرینک کاننگو نے کہا کہ مدھیہ پردیش میں 1,755 رجسٹرڈ مدارس میں 9,417 ہندو بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان اداروں میں بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے جو کہ آر ٹی ای ایکٹ کے تحت لازمی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر رجسٹرڈ مدارس میں پڑھنے والے مسلم بچوں کو بھی عام اسکولوں میں بھیجا جانا چاہیے۔ کاننگو نے کہا کہ، 'میں مدھیہ پردیش کی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ مدرسوں میں پڑھنے والے ہندو بچوں کو وہاں سے نکالاجائے۔'
کاننگو نے کہا کہ، 'جس ایکٹ کے تحت مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ وجود میں آیا ہے اس میں مدارس کی تعریف کی گئی ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ان میں اسلامی مذہبی تعلیم دی جانی چاہیے۔ حق تعلیم ایکٹ کا سیکشن 1 مدارس کو حق تعلیم قانون کے دائرے سے باہر رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ این سی پی سی آر کی اطلاع کے مطابق ان مدارس کے اساتذہ کےپا س بی ایڈ کی ڈگری نہیں ہے اور ٹیچر کی اہلیت کا امتحان بھی انھوں نے نہیں دیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مدارس کا بنیادی ڈھانچہ آر ٹی ای ایکٹ کے مطابق نہیں ہے۔ مدارس میں سیکورٹی کے انتظامات بھی ناقص ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ دور میں جدید عصری علوم کا انتظام مدارس میں لازمی ہونا چاہیے: عبید اللہ کوتوال
ہندو بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے پر سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ، 'میں مدھیہ پردیش حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اس کی اصلاح کرے۔
بچوں کے حقوق کی تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ تعلیم کا حق ایکٹ واضح طور پر کہتا ہے کہ حکومت اسکولوں کے قیام اور بچوں کو تعلیم دینے کا کام کرے گی، ایسے میں مدرسہ بورڈ کو فنڈز دینا ایسے مدارس کو رقم دینا ہے جو تعلیم کے حقوق سے بچوں کو محروم کر رہے ہیں۔
این سی پی سی آر کے چیئرمین نے کہا کہ، "لہذا حکومت کو اس پوری اسکیم پر غور کرنا چاہیے اور فوری طور پر مدرسوں سے ہندو بچوں کو نکال کر عام اسکولوں میں بھیجنا چاہیے۔"
آئی اے این ایس