ETV Bharat / sports

سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت کھیلوں میں پیچھے کیوں ہے؟ - Status of Sports in India - STATUS OF SPORTS IN INDIA

دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے 10 ممالک کی فہرست میں بھارت نمبر ایک ہے، جس کی آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی بھی اپنے آبادی کے لحاظ اولمپک کھیلوں میں اس طرح کا مظاہرہ نہیں کر سکا جس طرح کم آبادی اور کم وسائل والے ملک جیسے فجی اور منگلولیا کرتے ہیں۔

Status of Sports in India
سب سے زیادہ آبادی والا ملک بھارت کھیلوں میں پیچھے کیوں ہے؟ (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Sports Team

Published : Aug 29, 2024, 7:11 PM IST

حیدرآباد: بھارت میں ویسے مختلف قسم کے گیمز کھیلے جاتے ہیں لیکن بھارت نے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ میں جس طرح سے نام کمایا ہے ویسا نام کسی اور کھیل میں نہیں کما سکا۔ کرکٹ نے لوگوں کے ذہنوں پر ایسا اثر چھوڑا ہے کہ وہ اس کھیل کی پوجا کرتے ہیں۔

لیکن حقائق اور ریکارڈ اس بات کی دلیل ہیں کہ ملک میں کرکٹ کے علاوہ کھیلوں کی موجودہ حالت قابل رحم ہیں۔ کرکٹ کی مقبولیت اور جنون کی وجہ سے اس کھیل کو بلاشبہ ملک کی بہترین انتظامیہ اور اسپانسرز ملتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے 10 ممالک کی فہرست میں بھارت نمبر ایک ہے، جس کی آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی بھی اپنے آبادی کے لحاظ اولمپک کھیلوں میں اس طرح کا مظاہرہ نہیں کر سکا جس طرح کم آبادی اور کم وسائل والے ملک جیسے فجی اور منگلولیا کرتے ہیں۔ بھارت پیرس اولمپکس کے میڈل ٹیبل میں 71 ویں نمبر پر رہا جبکہ کم وسائل اور کم آبادی والے ملک فجی اور منگولیا میڈل سٹینڈنگ میں 44ویں نمبر پر ہے۔

پیرس اولمپکس 2024 میں بھارت کی کارکردگی:

پیرس اولمپکس میں کل 117 بھارتی ایتھلیٹس نے ملک کی نمائندگی کی، لیکن اس نے مجموعی طور پر چھ تمغے حاصل کیے جس میں، ایک چاندی اور پانچ کانسے کا تمغہ تھا۔ 1.4 بلین کی آبادی میں سے بھارت صرف 117 ایتھلیٹس کو تیار کر سکا جو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کر سکے۔ اس حساب سے ایک ملین سے زیادہ لوگوں میں سے یہ صرف ایک شخص اولمپیئن بن سکا۔

دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک پیرس اولمپکس میں ایک بھی گولڈ میڈل جیتنے میں ناکام رہا۔ بھارت نے 25 اولمپکس گیمز میں صرف 35 تمغے جیتے ہیں۔ ٹوکیو 2020 میں بھارت نے سات تمغے جیتے تھے جو ملک کا اب تک کا بہترین مظاہرہ تھا۔

بھارت نے اولمپکس میں خراب کارکردگی کیوں دکھائی؟

ناکافی انفراسٹرکچر اور تربیتی سہولیات کا فقدان: ملک میں جدید تکنیک کا گراس روٹ تک نہ پہچنا اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ملک میں عالمی معیار کے کوچز کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوچز کا انتخاب ان کی مقبولیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نہ کہ کھیل کے بارے میں ان کی جدید سمجھ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

کھلاڑیوں کی بدانتظامی: بدانتظامی اور کھلاڑیوں کو فراہم کی جانے والی ناکافی مدد بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ جس طرح سے اولمپکس کے فائنل میں پہنچنے کے بعد ونیش پھوگاٹ کو نااہل قرار دیا گیا وہ ایتھلیٹ مینجمنٹ میں بدانتظامی کی ناکامیوں کو نمایاں کرتی ہے۔

کارکردگی کا دباؤ: کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کئی کھلاڑی اپنے میچوں میں شروع میں برتری تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ بہتر کارکردگی کے دباؤ اور مناسب ذہنی مضبوطی کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی فتوحات کو میڈل یا فائنلسٹ میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

اسپورٹس فیڈریشن کے مسائل: یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی کھیلوں کی فیڈریشنز سیاست کاری اور بدعنوان سسٹم کی طرفداری کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے کھیلوں کی انتظامیہ میں ریزرویشن کا نظام اکثر نااہلی اور کم اہل افراد کے انتخاب کا باعث بنتا ہے۔

کھیلوں پر سیاسی افراد کا غلبہ: بھارت کے زیادہ تر کھیلوں کی فیڈریشنوں اور اداروں کی سربراہی سیاست دان کر رہے ہیں۔ جن سیاستدانوں کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے وہ کھیلوں کی تنظیموں کی سربراہی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔کچھ معاملات میں وہ انتظامی صلاحیت کے مالک ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ کھیلوں کے جدید تقاضوں کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔

کھیلوں کے تئیں حکومتی توجہ کا فقدان: کھیلوں کی فنڈنگ ​​اور سپورٹ میں بہتری کے باوجود حکومت کی ترجیحات دیگر اہم سماجی مسائل کے مقابلے میں تعلیم اور کھیلوں میں بہت کم ہے۔ کھیلوں میں طویل مدتی سرمایہ کاری فقدان بھی بھارت میں کھیلوں کی مضبوط ثقافت کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔

بھارت میں کھیلوں کے لیے فنڈ مختص

حکومت کے پروجیکٹ کھیلو انڈیا، جس کا مقصد گراس روٹ لیول کے کھیلوں کو فروغ دینا ہے، کو سب سے زیادہ روپئے دیئے گئے۔ مرکزی بجٹ 2024 میں وزارت کھیل کے کل بجٹ 3,442.32 کروڑ روپے میں سے 900 کروڑ روپے صرف کھیلو انڈیا کے لیے مختص کیے گئے۔

کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی میں مالی سرپرستی اور فنڈنگ ​​اہم کردار ادا کرتی ہے اور جب ہم کھیلوں کے بجٹ کو دیکھتے ہیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کے مجموعی کھیلوں کے بجٹ میں دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے دیگر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے بڑھتی ہوئی فنڈنگ ​​نے امید افزا نتائج دکھائے ہیں۔ بھارت کے اولمپک دستے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ملک اپنے پڑوسی ممالک سے اقتصادیات کے مقابلے میں اب بھی پیچھے ہے۔

بھارت میں کھیلوں کو کیریئر کے طور پر کیوں نہیں لیا جاتا؟

ایک اندازے کے مطابق دس افراد میں سے صرف ایک ہی کھیل کو کیریئر کے طور پر اپنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ زیادہ تر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اس فیلڈ میں کوئی کیریئر نہیں ہے۔ جب ہم مزید آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ کھیلوں کو ایک ایسی سرگرمی سمجھتے ہیں جو صرف اسکول تک ہی محدود ہے۔

اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کو کھیل کو بطور کیریئر انتخاب کرنے کی ترغیب دینے سے گریز کرتے ہیں اور وہ پڑھائی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ مزید براں بھارت میں کھیلوں کو اتنی عزت نہیں ملتی ہے جتنی تعلیم یافتہ شخص کو دی جاتی ہے۔ یہی سماجی ذہنیت نوجوان ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جو ان کو کھیلوں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے درکار وقت اور محنت کو خرچ کرنے سے روکتی ہے۔

انتخاب کے عمل میں اقربا پروری اور طرف داری

بھارت میں کھیلوں کے حکام پر متعدد دفعہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ صلاحیتوں کی بجائے سفارشوں کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں جو حقیقی طور پر باصلاحیت کھلاڑیوں کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے باصلاحیت کھلاڑی یا تو دریافت نہیں ہوپاتے یا پھر اعلی سطحوں پر مقابلہ کرنے کے لئے حوصلہ شکنی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

کھیلوں میں صنفی تعصبات

صنفی تعصب اور سماجی توقعات خواتین کھلاڑیوں کو کھیلوں کو سنجیدگی سے لینے میں روکاوٹ بنتی ہے۔ اگرچہ پی ٹی اوشا، میری کوم، میتھالی راج اور پی وی سندھو جیسی خواتین نے مجموعی طور پر ان رکاوٹوں کو توڑا ہے۔ ثقافتی اور معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کم رہتی ہے۔

مناسب انفراسٹرکچر کا فقدان

بھارتی حکومت کے بہت سے اقدامات کے باوجود ملک میں کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اہم چیلنجز میں سے موجودہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کا فقدان ہے، کھیلوں کی بہت سی سہولیات ناقص ہیں جو کھلاڑیوں کے لیے غیر محفوظ ہیں۔ جہاں کرکٹ بھارت میں سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے اور اسکے لیے بہترین سہولیات دستیاب ہیں

وہیں دیگر کھیلوں جیسے فٹبال، ہاکی اور ایتھلیٹکس کے لیے بہتر سہولیات کی ضرورت ہے جو کھلاڑیوں کو اعلیٰ سطح پر تربیت اور مقابلہ کرنے کے قابل بنائے اور کھیلوں کی صلاحیتوں کی نشوونما کو فروغ دے۔

بھارت میں سرفہرست پانچ مقبول ترین کھیل

کرکٹ (آئی پی ایل): انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل)، ایک پیشہ ور ٹوئنٹی-20 کرکٹ مقابلہ ہے جس کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کرکٹ لیگ ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ کی کاروباری قدر میں سال بھر میں 6.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کبڈی (پی کے ایل): پرو کبڈی لیگ (پی کے ایل) بھارت میں اس لیگ کا آغاز 2014 میں ہوا اور تب سے شائقین اور ناظرین میں زبردست مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ پی کے ایل 2024 کی نیلامی نے بھی تاریخ رقم کر دی ہے کیونکہ اس مرتبہ آٹھ کھلاڑیوں کو ایک کروڑ روپے سے زاید روپئے میں خریدا گیا ہے۔

فٹ بال (آئی ایس ایل اور آئی لیگ): انڈین سپر لیگ (آئی ایس ایل) اور آئی-لیگ مقابلے کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آئی ایس ایل کی بنیاد 2013 میں رکھی گئی تھی۔

بیڈمنٹن (پی بی ایل): پریمیئر بیڈمنٹن لیگ نے 2019 میں ٹی وی ناظرین کی تعداد ریکارڈ 155 ملین تک پہنچ گئی تھی۔

فیلڈ ہاکی (ایچ آئی ایل): 2013 میں قائم ہونے والی اس لیگ میں اس وقت چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

پیرس اولمپکس میں بھارتی کھلاڑیوں کی کارکردگی، میڈل میں کس ملک نے ماری بازی؟

بیڈمنٹن کھلاڑیوں پر کروڑوں روپئے خرچ ہونے کے باوجود ایک بھی میڈل نہیں جیت سکے

حیدرآباد: بھارت میں ویسے مختلف قسم کے گیمز کھیلے جاتے ہیں لیکن بھارت نے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ میں جس طرح سے نام کمایا ہے ویسا نام کسی اور کھیل میں نہیں کما سکا۔ کرکٹ نے لوگوں کے ذہنوں پر ایسا اثر چھوڑا ہے کہ وہ اس کھیل کی پوجا کرتے ہیں۔

لیکن حقائق اور ریکارڈ اس بات کی دلیل ہیں کہ ملک میں کرکٹ کے علاوہ کھیلوں کی موجودہ حالت قابل رحم ہیں۔ کرکٹ کی مقبولیت اور جنون کی وجہ سے اس کھیل کو بلاشبہ ملک کی بہترین انتظامیہ اور اسپانسرز ملتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے 10 ممالک کی فہرست میں بھارت نمبر ایک ہے، جس کی آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی بھی اپنے آبادی کے لحاظ اولمپک کھیلوں میں اس طرح کا مظاہرہ نہیں کر سکا جس طرح کم آبادی اور کم وسائل والے ملک جیسے فجی اور منگلولیا کرتے ہیں۔ بھارت پیرس اولمپکس کے میڈل ٹیبل میں 71 ویں نمبر پر رہا جبکہ کم وسائل اور کم آبادی والے ملک فجی اور منگولیا میڈل سٹینڈنگ میں 44ویں نمبر پر ہے۔

پیرس اولمپکس 2024 میں بھارت کی کارکردگی:

پیرس اولمپکس میں کل 117 بھارتی ایتھلیٹس نے ملک کی نمائندگی کی، لیکن اس نے مجموعی طور پر چھ تمغے حاصل کیے جس میں، ایک چاندی اور پانچ کانسے کا تمغہ تھا۔ 1.4 بلین کی آبادی میں سے بھارت صرف 117 ایتھلیٹس کو تیار کر سکا جو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کر سکے۔ اس حساب سے ایک ملین سے زیادہ لوگوں میں سے یہ صرف ایک شخص اولمپیئن بن سکا۔

دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک پیرس اولمپکس میں ایک بھی گولڈ میڈل جیتنے میں ناکام رہا۔ بھارت نے 25 اولمپکس گیمز میں صرف 35 تمغے جیتے ہیں۔ ٹوکیو 2020 میں بھارت نے سات تمغے جیتے تھے جو ملک کا اب تک کا بہترین مظاہرہ تھا۔

بھارت نے اولمپکس میں خراب کارکردگی کیوں دکھائی؟

ناکافی انفراسٹرکچر اور تربیتی سہولیات کا فقدان: ملک میں جدید تکنیک کا گراس روٹ تک نہ پہچنا اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ملک میں عالمی معیار کے کوچز کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوچز کا انتخاب ان کی مقبولیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نہ کہ کھیل کے بارے میں ان کی جدید سمجھ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

کھلاڑیوں کی بدانتظامی: بدانتظامی اور کھلاڑیوں کو فراہم کی جانے والی ناکافی مدد بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ جس طرح سے اولمپکس کے فائنل میں پہنچنے کے بعد ونیش پھوگاٹ کو نااہل قرار دیا گیا وہ ایتھلیٹ مینجمنٹ میں بدانتظامی کی ناکامیوں کو نمایاں کرتی ہے۔

کارکردگی کا دباؤ: کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کئی کھلاڑی اپنے میچوں میں شروع میں برتری تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ بہتر کارکردگی کے دباؤ اور مناسب ذہنی مضبوطی کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی فتوحات کو میڈل یا فائنلسٹ میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

اسپورٹس فیڈریشن کے مسائل: یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی کھیلوں کی فیڈریشنز سیاست کاری اور بدعنوان سسٹم کی طرفداری کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے کھیلوں کی انتظامیہ میں ریزرویشن کا نظام اکثر نااہلی اور کم اہل افراد کے انتخاب کا باعث بنتا ہے۔

کھیلوں پر سیاسی افراد کا غلبہ: بھارت کے زیادہ تر کھیلوں کی فیڈریشنوں اور اداروں کی سربراہی سیاست دان کر رہے ہیں۔ جن سیاستدانوں کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے وہ کھیلوں کی تنظیموں کی سربراہی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔کچھ معاملات میں وہ انتظامی صلاحیت کے مالک ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ کھیلوں کے جدید تقاضوں کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔

کھیلوں کے تئیں حکومتی توجہ کا فقدان: کھیلوں کی فنڈنگ ​​اور سپورٹ میں بہتری کے باوجود حکومت کی ترجیحات دیگر اہم سماجی مسائل کے مقابلے میں تعلیم اور کھیلوں میں بہت کم ہے۔ کھیلوں میں طویل مدتی سرمایہ کاری فقدان بھی بھارت میں کھیلوں کی مضبوط ثقافت کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔

بھارت میں کھیلوں کے لیے فنڈ مختص

حکومت کے پروجیکٹ کھیلو انڈیا، جس کا مقصد گراس روٹ لیول کے کھیلوں کو فروغ دینا ہے، کو سب سے زیادہ روپئے دیئے گئے۔ مرکزی بجٹ 2024 میں وزارت کھیل کے کل بجٹ 3,442.32 کروڑ روپے میں سے 900 کروڑ روپے صرف کھیلو انڈیا کے لیے مختص کیے گئے۔

کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی میں مالی سرپرستی اور فنڈنگ ​​اہم کردار ادا کرتی ہے اور جب ہم کھیلوں کے بجٹ کو دیکھتے ہیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کے مجموعی کھیلوں کے بجٹ میں دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے دیگر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے بڑھتی ہوئی فنڈنگ ​​نے امید افزا نتائج دکھائے ہیں۔ بھارت کے اولمپک دستے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ملک اپنے پڑوسی ممالک سے اقتصادیات کے مقابلے میں اب بھی پیچھے ہے۔

بھارت میں کھیلوں کو کیریئر کے طور پر کیوں نہیں لیا جاتا؟

ایک اندازے کے مطابق دس افراد میں سے صرف ایک ہی کھیل کو کیریئر کے طور پر اپنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ زیادہ تر لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اس فیلڈ میں کوئی کیریئر نہیں ہے۔ جب ہم مزید آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ کھیلوں کو ایک ایسی سرگرمی سمجھتے ہیں جو صرف اسکول تک ہی محدود ہے۔

اس کے علاوہ والدین اپنے بچوں کو کھیل کو بطور کیریئر انتخاب کرنے کی ترغیب دینے سے گریز کرتے ہیں اور وہ پڑھائی پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ مزید براں بھارت میں کھیلوں کو اتنی عزت نہیں ملتی ہے جتنی تعلیم یافتہ شخص کو دی جاتی ہے۔ یہی سماجی ذہنیت نوجوان ٹیلنٹ کی حوصلہ شکنی کرتی ہے جو ان کو کھیلوں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے درکار وقت اور محنت کو خرچ کرنے سے روکتی ہے۔

انتخاب کے عمل میں اقربا پروری اور طرف داری

بھارت میں کھیلوں کے حکام پر متعدد دفعہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ صلاحیتوں کی بجائے سفارشوں کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں جو حقیقی طور پر باصلاحیت کھلاڑیوں کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے باصلاحیت کھلاڑی یا تو دریافت نہیں ہوپاتے یا پھر اعلی سطحوں پر مقابلہ کرنے کے لئے حوصلہ شکنی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

کھیلوں میں صنفی تعصبات

صنفی تعصب اور سماجی توقعات خواتین کھلاڑیوں کو کھیلوں کو سنجیدگی سے لینے میں روکاوٹ بنتی ہے۔ اگرچہ پی ٹی اوشا، میری کوم، میتھالی راج اور پی وی سندھو جیسی خواتین نے مجموعی طور پر ان رکاوٹوں کو توڑا ہے۔ ثقافتی اور معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کم رہتی ہے۔

مناسب انفراسٹرکچر کا فقدان

بھارتی حکومت کے بہت سے اقدامات کے باوجود ملک میں کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اہم چیلنجز میں سے موجودہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کا فقدان ہے، کھیلوں کی بہت سی سہولیات ناقص ہیں جو کھلاڑیوں کے لیے غیر محفوظ ہیں۔ جہاں کرکٹ بھارت میں سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے اور اسکے لیے بہترین سہولیات دستیاب ہیں

وہیں دیگر کھیلوں جیسے فٹبال، ہاکی اور ایتھلیٹکس کے لیے بہتر سہولیات کی ضرورت ہے جو کھلاڑیوں کو اعلیٰ سطح پر تربیت اور مقابلہ کرنے کے قابل بنائے اور کھیلوں کی صلاحیتوں کی نشوونما کو فروغ دے۔

بھارت میں سرفہرست پانچ مقبول ترین کھیل

کرکٹ (آئی پی ایل): انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل)، ایک پیشہ ور ٹوئنٹی-20 کرکٹ مقابلہ ہے جس کی بنیاد 2008 میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کرکٹ لیگ ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ کی کاروباری قدر میں سال بھر میں 6.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کبڈی (پی کے ایل): پرو کبڈی لیگ (پی کے ایل) بھارت میں اس لیگ کا آغاز 2014 میں ہوا اور تب سے شائقین اور ناظرین میں زبردست مقبولیت حاصل کرچکا ہے۔ پی کے ایل 2024 کی نیلامی نے بھی تاریخ رقم کر دی ہے کیونکہ اس مرتبہ آٹھ کھلاڑیوں کو ایک کروڑ روپے سے زاید روپئے میں خریدا گیا ہے۔

فٹ بال (آئی ایس ایل اور آئی لیگ): انڈین سپر لیگ (آئی ایس ایل) اور آئی-لیگ مقابلے کی اعلیٰ سطح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آئی ایس ایل کی بنیاد 2013 میں رکھی گئی تھی۔

بیڈمنٹن (پی بی ایل): پریمیئر بیڈمنٹن لیگ نے 2019 میں ٹی وی ناظرین کی تعداد ریکارڈ 155 ملین تک پہنچ گئی تھی۔

فیلڈ ہاکی (ایچ آئی ایل): 2013 میں قائم ہونے والی اس لیگ میں اس وقت چھ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

پیرس اولمپکس میں بھارتی کھلاڑیوں کی کارکردگی، میڈل میں کس ملک نے ماری بازی؟

بیڈمنٹن کھلاڑیوں پر کروڑوں روپئے خرچ ہونے کے باوجود ایک بھی میڈل نہیں جیت سکے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.