حیدرآباد: کم و بیش دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے 60 سربراہان مملکت اور 8 بین الاقوامی تنظیموں سمیت 92 ممالک کی دو روزہ امن کانفرنس سوئٹزرلینڈ میں ہوئی۔ اس میں یوکرین کی راجدھانی کیو میں جنگ کے خاتمے کے لیےمجوزہ 10 نکاتی منصوبے پر تبادلہ خیال کیا گیا اور تین اضافی نکات جوہری خطرہ، خوراک کا تحفظ اور یوکرین میں انسانی سلامتی اور ان کی ضروریات پر بھی بحث و تمحیص ہوئی۔ یہ اجلاس 16 جون کو اختتام پذیر ہوا۔ تاہم، اس اجلاس کا بنیادی مطمح نظر یوکرین کے لیے ایک امن منصوبہ بنانا تھا لیکن مکمل اتفاق رائے کی کمی کی وجہ سے حل کے حوالے سے جامع اعلامیہ جاری نہیں کیا جاسکا۔ شریک سربراہان مملکت اور حکومتی نمائندے اس سوال پر واضح نقطہ نظر پر متفق نہیں ہو سکے کہ روس کو مستقبل میں کب اور کیسے شامل ہونا چاہیے۔ 80 ممالک اور یورپی یونین کے چار بڑے اداروں یورپی کمیشن، یورپی کونسل، یورپی پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ کونسل آف یورپ نے اعلامیے پر دستخط کیے ہیں۔ آرمینیا، بحرین، برازیل، بھارت، انڈونیشیا، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، سرینام، تھائی لینڈ اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے اس اعلامیے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
جو اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں یوکرین کی جنگ کے لیے روس کی مذمت کی گئی ہے، جس نے بے پناہ تباہی مچائی اور انسانی اذیت کا باعث بنا ہے، اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی بنیاد پر یوکرین کی علاقائی سالمیت کے احترام کا مطالبہ کیا گیا۔ روس کی جانب سے زیپوری زیا نیوکلیائی پاور پلانٹ کو یوکرین کے مکمل کنٹرول میں واپس کرنے، بحیرہ اسود اور ازوف میں اپنی بندرگاہوں تک یوکرین کی رسائی، تمام جنگی قیدیوں کی رہائی اور جلاوطن کیے گئے تمام یوکرائنی بچوں کی واپسی اور اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسلسل پیداواری عمل کو یقینی بنائے۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا کہ یوکرین میں کھانے کی ضروریات کو پورا کیا جائے. دستاویز میں واضح کیا گیا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے تناظر میں جوہری ہتھیاروں کے کسی بھی خطرے یا استعمال کی اجازت نہیں ہے اور جہازوں اور شہری بندرگاہوں پر حملے ناقابل قبول ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اعلامیے میں روس پر زور نہیں دیا گیا کہ وہ یوکرین کی سرزمین سے اپنی فوجیں نکال لے۔ سربراہی اجلاس کے بعد، صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ دستخط کنندگان علیحدہ گروپوں میں ان مسائل پر کام کریں گے جن کی نشاندہی آئندہ حکمت عملی کے طور پر اعلامیے میں کی گئی ہے اور جب دستاویز میں اعلان کردہ ہر نکتے پر عمل درآمد کے لیے ایک ایکشن پلان تیار ہو جائے گا تو دوسری امن سربراہی کانفرنس ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد یہ منصوبہ روس کو دوسری سربراہی اجلاس کے دوران پیش کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ، سربراہی اجلاس کے اعلامیے نے پرامن حل تلاش کرنے کے لیے ہونے والے کام کو ایک واضح سمت اور رفتار دی ہے لیکن روس اور چین جیسے اہم ممالک کی عدم موجودگی، اس رفتار میں رکاوٹ ہے اور خطے میں مستقل امن کے حصول کی پیچیدگیوں اور چیلنجوں کو اجاگر کرتی ہے۔ تقریب میں ان کی غیر موجودگی بھی کچھ دیگر ممالک کو سربراہی اجلاس سے دور رہنے کا باعث بنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برکس ممالک اور سعودی عرب کی حمایت کا فقدان بھی ایک قابل ذکر عنصر ہے۔ برازیل، بھارت اور جنوبی افریقہ وہاں تھے، لیکن کوئی سربراہ مملکت کے ساتھ نہیں آیا۔ برازیل نے بطور مبصر شرکت کی اور جنوبی افریقہ نے نمائندہ بھیجا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے وزیر خارجہ فیصل بن فہد السعود کو بھیجا ہے۔ بھارت نے وزارت خارجہ کے سیکرٹری سطح کے سینئر عہدیدار پون کپور کو بھیجا ہے۔
یوکرین نے امید ظاہر کی ہے کہ امن سمٹ میں بھارت کلیدی کردار ادا کرے گا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی وزیر اعظم نریندر مودی سے حالیہ ملاقات کے تناظر میں زیلنسکی نے ذاتی طور پر مودی کو امن کانفرنس میں شرکت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔ بھارت کے ماسکو کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات ہیں اور دفاعی سامان کے لیے روس پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ مزید یہ کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، بھارت تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے افراط زر کے اثر کو کم کرنے کے لیے رعایتی قیمتوں پر روسی تیل بھی خرید رہا ہے۔ نئی دہلی نے اس کانفرنس کی مرکزی کوشش کے بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا کہ روسی صدر پوتن کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کیا جائے اور گلوبل ساؤتھ میں مودی جیسے لیڈروں کو روس کے خلاف مغربی کوششوں میں شامل ہونے پر راضی کیا جائے۔ چنانچہ ان عوامل کے بجائے وزیر اعظم مودی نے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نہ ہی وزیر خارجہ جے شنکر اور نہ ہی خارجہ سکریٹری ونے کواترا کو سوئٹزرلینڈ بھیجا گیا، حالانکہ وہ اٹلی میں جی-7 سربراہی اجلاس میں پی ایم مودی کے ساتھ گئے تھے۔ وزیر اعظم مودی نے کانفرنس کے لیے سکریٹری سطح کے ایک اہلکار پون کپور کو بھیجنے کا فیصلہ کیا، جو حال ہی میں روس میں سفیر تھے، جنہوں نے فوجی سازوسامان کی فراہمی، مشترکہ ہتھیاروں کی تیاری، اور روس سے تیل کی درآمدات کے تسلسل کی ضمانت کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ پون کپور کے ذریعے سربراہی اجلاس میں بھارت کی شمولیت روس اور یوکرین کے جاری تنازعہ کے دوران اس کے سفارتی توازن کے عمل کی نشاندہی کرتی ہے۔
ہندوستان نے روس اور یوکرین کے درمیان سفارتی توازن برقرار رکھا ہے۔ بھارت نے مسلسل یوکرین میں دشمنی کے خاتمے اور بات چیت اور سفارت کاری کے راستے پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے، حالانکہ نئی دہلی نے واضح طور پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے، اور یو این ایس سی میں ہندوستان نے ایک بہتر کردار ادا کیا ہے اور روس کے خلاف ووٹ دینے سے پرہیز کیا ہے۔
روس-یوکرین تنازعہ کا براہ راست فریق نہ ہونے کے باوجود، ترقی پذیر دنیا کو عالمی توانائی اور اجناس کی منڈیوں میں اس کے اثرات سے سخت نقصان پہنچا ہے، جس میں تیل، گندم اور دھاتوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ بھی شامل ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ بھارت ایک قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر روس سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے علاوہ، نئی دہلی کی غیر منسلک پوزیشن اور یوکرین اور روس کے ساتھ گہرے سفارتی تعلقات اسے ترقی پذیر ممالک کے وکیل بننے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ہرش پنتھ جیسے ماہرین کا خیال ہے کہ سربراہی اجلاس میں مودی کی موجودگی ان ابھرتی ہوئی معیشیتوں کی ترجمانی کیلئے ضروری تھی جن میں یوکرین جنگ کی وجہ سے توانائی کے بحران، خوراک کا عدم تحفظ، اور سپلائی چین کے ارتعاش کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
نئی دہلی، روس اور یوکرین کے درمیان معلق ہوگئی ہے۔ یوکرین کو امریکہ کی قیادت میں مغربی اتحاد کی پشت پناہی ہے لیکن بھارت روس اور یوکرین دونوں کا حلیف ہے۔ بھارت کی جانب سے سکریٹری سطح کے عہدیدار کو نمائندگی کیلئے بھیجا گیا اور اعلامیہ پر دستخط بھی نہیں کیے گئے۔ نریندر مودی نے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرکے اور اپنی جگہ ایک عہدیدار کو بھیج کر، اور اعلامیے پر دستخط نہ کر کے، یہ پیغام دیا ہے کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو تنہا کرنے کی مغربی کوششوں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان اس بات کے لیے پرعزم ہےکہ سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے یوکرین میں جلد امن کی بحالی ہونی چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: