پارلیمنٹ میں حالیہ دنوں پیش کئے گئے عبوری بجٹ برائے سال 2024-25 کے لیے دفاعی شعبے کے لیے 6,21,540.85 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ پچھلے سال کے 5.93 لاکھ کروڑ کی مختص رقم کے مقابلے میں معمولی انداز سے اضافی ہے۔یہ کل بجٹ کا 13.04 فیصد بنتا ہے جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ چین کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے پیش نظر حکومت کس طرح کی پیش بندی کررہی ہے۔
اس بجٹ کا مقصد خود انحصاری اور برآمدات کو بھی فروغ دینا ہے۔ 2024-25 کے لیے دفاع کے لیے یہ رقم 2022-23 کے لیے مختص رقوم کے مقابلے میں 18.35 فیصد زیادہ اور 2023-24 کے مختص رقم کے مقابلے میں 4.72 فیصد زیادہ ہے۔
دفاعی بجٹ کو چار زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے: وزارت دفاع (ایم او ڈی) کے سول اخراجات، دفاعی خدمات کی مالی محصولات، سرمائے کے اخراجات، تنخواہ اور الاؤنسز اور دفاعی پنشن۔ دفاعی بجٹ کا حصہ 4.11 فیصد محکمہ دفاع کی تنظیم کے لیے، 14.82 فیصد اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی اور آپریشنل تیاریوں پر خرچ ہونے والے اخراجات کے لیے، 27.67 فیصد نئے ہتھیاروں اور فوجی سسٹمز کی خریداری کے لیے سرمائے کے اخراجات، جبکہ 30.68 فیصد تنخواہ اور دفاعی اہلکاروں کو الاؤنسز کیلئے اور دفاعی پنشن کے لیے 22.72 فیصد حصہ مختص ہے۔
مسلح افواج کو جدید بنانے کے لیے،بھارتی حکومت نے 2023-24 کے بجٹ کے مقابلے میں سرمائے کے اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ سال 2024-25 کے عبوری بجٹ میں فوج پر سرمائے کے اخراجات کے لیے 1.72 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو 2023-24 میں مختص کیے گئے 1.62 لاکھ کروڑ روپے سے 6.2 فیصد زیادہ ہے۔
ہوائی جہاز اور ایرو انجنوں کے لیے دفاعی خدمات کا سرمایہ 40,777 کروڑ روپے ہے، جب کہ 'دیگر آلات' کے لیے کُل 62,343 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے۔ بحریہ کے لیے 23,800 کروڑ روپے اور بحری ڈاکیارڈ کے پروجیکٹوں کے لیے 6,830 کروڑ روپے کا تخمینہ بھی رکھا گیا ہے۔
یہ الاٹمنٹ فوج، بحریہ اور فضائیہ کے 'لانگ ٹرم انٹیگریٹڈ پرسپیکٹیو پلان' جسے ایل ٹی آئی پی پی کہا جاتا ہے ، کے عین مطابق ہے۔ اس پلان کا مقصد نئے ہتھیاروں، ہوائی جہازوں، جنگی جہازوں اور دیگر فوجی ہارڈ ویئر کی خریداری کے ذریعے مسلح افواج کی جدید کاری کرنا ہے، تاکہ فوج کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور اس میدان میں موجود کمیوں کو پُر کیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت 2024-25 میں روایتی آبدوزوں ، لڑاکا جیٹس اور پریڈیٹر ڈرونز کی خریداری شامل ہے۔
بجٹ میں مالی خرچہ جات کیلئے مجموعی طور 4,39,300کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں، جس میں سے 1,41,205 کروڑ محکمہ دفاع کے پنشنروں کیلئے الگ رکھے جائیں گے۔2,82,772 کروڑ روپے کی خطیر رقم دفاعی خدمات کے لیے اور 15,322 کروڑ روپے وزرت دفاع کی سول تنظیم کے لیے رکھے جائیں گے۔
2024-25 کے لیے بھارتی فوج کے لیے مالی خرچہ جات 1,92,680 کروڑ روپے ہیں، جب کہ بحریہ اور فضائیہ کے لیے بالترتیب 32,778 کروڑ اور 46,223 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔مالی خرچہ جات میں 2023-24 کے بجٹ کے مقابلے میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جو اسٹورز، اسپیئرز، مرمت اور دیگر خدمات کے لیے مخصوص رقومات میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کا مقصد تمام پلیٹ فارمز بشمول ہوائی جہاز اور بحری جہازوں کو بہترین دیکھ بھال کی سہولیات اور سپورٹ سسٹم فراہم کرنا ہے اور ساتھ ہی گولہ بارود کی خریداری اور وسائل کی نقل و حرکت میں بھی اس رقم کا استعمال کیا جائے گا۔ یہ مسلح افواج کے روزمرہ کے اخراجات کو بھی تعاون فراہم کرتا ہے، تاکہ اگر کسی بھی وقت سرحدی علاقوں میں تعیناتی کی ضرورت پڑے تو مالی دشواریوں کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔
شمالی سرحد پر بھارت اور چین کی افواج ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہیں۔ اس پسِ منظر میں حکومت نے 2024-25 کے لیے بارڈر روڈز آرگنائزیشن کو 6,500 کروڑ روپے کی رقم الاٹ کی ہے، جو گزشتہ دو مالی برسوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔
سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو مزید مستحکم کرنے جس میں لداخ میں 13,700 فٹ کی اونچائی پر نیوما ایئر فیلڈ کی بہتری بھی شامل ہے، جبکہ ہندوستان کی سب سے جنوبی پنچایت جو انڈومان نکوبار میں واقع ہے، تک پُل کی رسائی، ہماچل پردیش میں شنکو لا ٹنل اور اروناچل میں نیچیفو سرنگ کی تعمیر کا بھی اسی بجٹ میں احاطہ کیا گیا ہے۔
ہندوستان دفاعی شعبے میں2020 سے امریکہ اور چین کے بعد تیسرا سب سے بضت مختص کرنے والا ملک بن گیا ہے۔اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ(ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق 2018 کا ڈیفنس بجٹ66.26 بلین امریکی ڈالر تھا جو کہ 2017 سے 2.63 فیصد زیادہ ہے۔اسی طرح 2019 کے لیے 71.47 بلین ڈالر تھا، جو 2018 کے مقابلے میں7.86 فیصد زیادہ تھا۔ چین کا دفاعی بجٹ بھارت کے مقابلے میں تواتر کے ساتھ زیادہ ہے۔ بھارت نے 2023-24 میں اپنی فوج پر 72.6 بلین ڈالر خرچ کیے ہیں،جبکہ چین نے اس مد میں 225 بلین ڈالر مختص رکھے تھے۔
دفاعی بجٹ میں اضافہ معقول ہے، لیکن موجودہ جغرافیائی اور سیاسی منظر نامے میں فوج کی جدید کاری کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی نہیں ہے۔ چونکہ بھارت اور چین کے فوجی اخراجات میں کافی تفاوت ہے، اس لئے بھارت چین کے دفاعی بجٹ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ تاہم، یہ ٹیکنالوجی پر مبنی جدید کاری اور خود انحصاری پر زیادہ توجہ دے کر چینی تسلط کو روک سکتا ہے۔درحقیقت، ایک خاص حد تک بہتر بجٹ مختص کرنے سے مسلح افواج کو مخصوص ٹیکنالوجی کے مہلک ہتھیاروں، ہوائی جہازوں، جنگی جہازوں اور دیگر فوجی ہارڈ ویئر سے لیس کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ گھریلو خریداری کے لیے بجٹ کے ایک حصے کو مخصوص کرنے سے گھریلو صنعت کو فروغ ملنے کا امکان ہے اور اس سے غیر ملکی صنعت کاروں سے 'میک ان انڈیا' کا حصہ بننے کی روش کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔مستقبل میں، پنشن پر ہونے والے اخراجات کو کم کرکے شارٹ ٹرم ڈیوٹی اسکیم 'اگنی پتھ' سے کچھ اور فنڈز پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
(تحریر نگار کی یہ اپنی آرا ہیں)