ETV Bharat / opinion

نئے ایرانی صدر کا انتخاب اور اس کے مضمرات - IRAN PRESIDENT

NEW IRAN PRESIDENT: سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ایک فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد ایران کے صدر کے عہدے کے لیے انتخابات ہوئے جس میں ڈاکٹر مسعود پزیشکیان نے سعید جلیلی کے مقابلے میں 53.7 فیصد کے مقابلہ 44.3 فیصد سے کامیابی حاصل کی۔ اس موقع پر جے کے ترپاٹھی کے ذریعہ نئے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کے منتخب ہونے کا کیا اثر ہوگا۔ اور بھارت ایران تعلقات کس سمت میں ہوں گے۔ اس پر ایک تجزیاتی مضمون قارئین کے لیے پیش ہے۔

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 9, 2024, 5:37 PM IST

Implication of election of new Iranian President Masoud Pezeshkian by JK Tripathi
نئے ایرانی صدر کا انتخاب اور اس کے مضمرات (ETV bharat)

حیدرآباد: ایک فضائی حادثے میں سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد ایران کے صدر کے عہدے پر نئے لیڈر کے انتخاب کا بہت انتظار کیا جا رہا تھا۔ بالآخر رن آف کے بعد دوسرے راؤنڈ کے لیے 6 جولائی کو نتائج سامنے آئے۔ 69 سال کی عمر میں، مسعود پیزشکیان، جو اپنے اصلاحی خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں، نے اپنے قدامت پسند مخالف سعید جلیلی کو 53.7 فیصد کے مقابلے میں 44.3 فیصد (تقریباً 30 لاکھ ووٹوں کے فرق سے) ہرایا جو کہ کل ووٹوں کا کم و بیش 10 فیصد ہے۔ تجزیہ نگار جتیندر کمار ترپا ٹھی نے نئے وزیر اعظم مسعود پیزشکیان ایران کی مابعد انقلاب تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ صدر بن گئے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے دل کی سرجری کے ماہر، پیزشکیان پانچ مرتبہ ایرانی پارلیمنٹ کے رکن، دو کاؤنٹیوں کے گورنر اور ایران کے وزیر صحت رہ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کون ہیں ایران کے نئے صدر ڈاکٹرمسعود پزیشکیان، کیا وہ اپنے اصلاحی ایجنڈے کو نافذ کر سکیں گے؟ - New Iran President

پیزشکیان کس سے ہیں متاثر

پیزشکیان سابق اصلاح پسند صدر روحانی سے متاثر ہیں اور ماضی میں دو بار وہ ایوان صدارت میں پہنچنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ پہلی بار 2013 میں جب انہیں اپنی امیدواری واپس لینا پڑی اور پھر 2021 میں، جب طاقتور گارڈین کونسل نے ان کا نام مسترد کر دیا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران، انہوں نے اپنے سخت گیر مخالفین کی تنقید کو اس وقت دعوت دی جب انہوں نے اعلان کیا کہ "طاقت کے استعمال سے مذہبی عقیدے کا نفاذ سائنسی طور پر ناممکن ہے"۔ واضح رہے کہ پارلیمان کے اسپیکر سمیت دیگر تمام بڑے امیدوار سعید جلیلی کے حق میں دستبردار ہو گئے تاکہ مقابلے کو واضح طور پر اصلاحات بمقابلہ روایت بنایا جا سکے۔

پیزشکیان کا حجاب پر کیا موقف ہے؟

پیزشکیان حجاب کے نفاذ پر گشتی پولیس کی موجودگی کے مخالف ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ کی پابندیوں میں نرمی کریں گے، اپنی کابینہ میں مزید خواتین اور قبائلیوں کو شامل کریں گے اور سب سے اہم یہ کہ وہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے، یعنی مشترکہ اور مربوط لائحہ عمل کے احیاء کے لیے کام کریں گے تاکہ ان کے ملک پر عائد اقتصادی بندشیں کم ہوسکیں جو جوہری عزائم کی وجہ سے عائد کی گئی ہیں۔ انہوں نے واضح طور "مغرب کے ساتھ تعمیری تعلقات" کے ذریعے "ایران کو تنہائی سے نکالنے" کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ اپنے مخالف امیدوار کے ساتھ انتخابی مباحثے میں، صدر منتخب نے دعویٰ کیا کہ بڑھتی ہوئی افراط زر (موجودہ 40 فیصد کے قریب) کو روکنے کا واحد طریقہ 200 بلین ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا ہے جو کہ "دنیا کے ساتھ تعلقات کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ " واضح طور پر، اس نے چین، روس اور مٹھی بھر روایتی اتحادیوں سے آگے دو طرفہ تعلقات پر نظرثانی کرنے پر اپنی نگاہیں مرکوز کر رکھی ہیں۔

پیزشکیان سے ایران کو پاورفل بنانے کی توقعات

ایران کے اندر، پیزشکیان کی جیت پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں کے لیے، ان کے اقتدار میں آنے سے طویل مدتی اصلاحات کی امید پیدا ہوئی ہے، خاص طور پر 2022 میں ملک بھر میں حجاب مخالف مظاہروں کے نتیجے میں، کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ شاید ہی وہ کوئی بہتری لا سکیں۔ معروف ایرانی سیاسی مبصر مصدغ مصدغ پور کے مطابق، "لوگ اس وقت پرامید ہیں کہ وہ کچھ اچھی تبدیلیاں کر سکتے ہیں اور کچھ مسائل حل کر سکتے ہیں۔" اس امید کو پورا کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملکی پالیسیوں میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آئینی دفعات اور رہبر (سپریم لیڈر) آیت اللہ علی خامنہ ای کی وسیع طاقت کے پیش نظر، انٹرنیٹ پر پابندی میں نرمی، کابینہ میں خواتین اور قبائلیوں کی نمائندگی میں اضافہ جیسی کچھ سماجی تبدیلیوں کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن حجاب جیسے زیادہ متنازعہ مسائل اور اعلیٰ عدلیہ اور پولیس کی سربراہی جیسے حساس معاملات کے ساتھ چھیڑنے کا امکان نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایران کے صدارتی انتخاب میں کسی کو بھی اکثریت نہیں ملی، دوبارہ ہوگی ووٹنگ - Iran Presidential Election

ایران پر مغربی ممالک کی پابندیوں سے کیا چھٹکارا ملے گا؟

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صدر کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ملک کے سپریم لیڈر خود قدامت پسند ہیں اور صرف انہیں مسلح افواج، انٹیلی جنس، پولیس، عدلیہ، ریڈیو اور ٹی وی کے سربراہان اور گارڈین کونسل کے ارکان کی تقرری کا واحد اختیار حاصل ہے۔ مزید برآں، اس سال مارچ میں منتخب ہونے والی نئی پارلیمنٹ میں، سخت گیر اکثریت میں ہیں جس کی وجہ سے پیزشکیان کے لیے سیلاب جیسے پانی سے گزرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم، ایران پر مغربی ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے تباہ کن اثرات کے پیش نظر، خامنہ ای نئے صدر کو جے سی پی او اے کے احیاء کے لیے بات چیت کے لیے ایک چھوٹی سی راہ دے سکتے ہیں۔

لیکن اگر خامنہ ای پیزشکیان کے ذریعے امن کی خواہش کا پیغام امریکہ تک پہنچاتے بھی ہیں تو اس طرح کی کوشش کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ایران نے تقریباً 90 فیصد یورینیم کی افزودگی حاصل کر لی ہے، جو کہ بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس صورتحال میں جے سی پی او اے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیش نظر دباؤ کا شکار ہے اور یقیناً ایران کی شکل میں امریکہ ایسا کوئی اقدام اٹھانا نہیں چاہے گا جس کے ٹھوس نتیجہ حاصل ہونے کا یقین نہ ہو۔ فی الحال امریکہ چاہے گا کہ اسے مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی ممکن بنانے کا موقع ملے جسے بائیڈن انتظامیہ اپنے کارنامہ کے طور متعارف کرسکے۔

پیزشکیان کی کامیابی پر پڑوسی ممالک کا ردعمل

اگرچہ بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وینزویلا نے اس انتخاب کو ایک ہمہ جہتی فتح کے طور پر سراہا ہے اور علاقائی امن کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، لیکن مغربی دنیا کے ردعمل کا ابھی انتظار ہے۔ عراق جیسے کچھ ممالک نے اس انتخاب پر بہت محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے جو صرف مبارکبادی کے پیغامات تک ہی محدود ہے۔ مشرق وسطیٰ کے دوسرے بڑے ممالک جیسے مصر اور اردن کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم، امریکی دفتر خارجہ نے انتخابات کو 'آزادانہ یا منصفانہ ' قرار نہیں دیا اور اعلان کیا کہ "اس سے ایران کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔" وزیر اعظم مودی نے منتخب صدر کو مبارکباد دینے کے لیے پہل کی اور اپنے پیغام میں کہا کہ وہ عوام اور خطے کے مفاد کے لیے ہمارے دوستانہ اور دیرینہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے منتظر ہیں۔

بھارت ایران تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

پیزشکیان کا انتخاب ہندوستان ایران تعلقات پر کیا اثر ڈالے گا؟ ہمارے ایران کے ساتھ پہلے ہی مستقل طور پر اچھے تعلقات ہیں۔ سوائے چابہار بندرگاہ کے انتظام کے حوالے سے بعض اوقات غلط فہمیوں کے جن کو دور کر لیا گیا ہے۔ بھارت نے کچھ تاخیر کے بعد ایک بار پھر چابہار-زاہدان ریل پروجیکٹ میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تاہم، اگر نئے ایرانی صدر جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے، کو بحال کرکے ایران کو تنہائی سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں پابندیوں میں نرمی آئے گی، جس کے نتیجے میں، ہمارے لیے ایران سے خام تیل کی درآمد دوبارہ کھل جائے گی۔

واضح رہے کہ ایران پر مغربی پابندیوں سے قبل یہ بھارت کے لیے خام تیل کا ایک بڑا اور بعض اوقات سب سے بڑا ذریعہ رہا تھا۔ یہ ایران میں مزید انفراسٹرکچر کی ترقی میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرے گا جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہماری تجارت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مزید برآں، یہ ہمیں ایران-پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن کو بحال کرنے کا موقع فراہم کرے گا اور ایران کو اس بات پر قائل کرے گا کہ وہ پاکستان پر 2755 کلومیٹر طویل منصوبے میں سے اپنا حصہ (781 کلومیٹر) مکمل کرنے کے لیے دباؤ بڑھائے۔ اگر ہم اس منصوبے میں دوبارہ شامل ہوتے ہیں اور اگر ایران پاکستان کو اپنا وعدہ پورا کرنے پر مجبور کرتا ہے تو ہماری توانائی کی رکاوٹیں نمایاں طور پر دور ہو جائیں گی۔

لیکن آخر میں، یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ ایران کی نئی انتظامیہ کس حد تک مغرب کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہے اور اس کے جواب میں مغرب کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ نئی صورتحال مملکت سعودی عرب کے لیے بھی ایک امتحان ہے کیونکہ دیکھنا یہ ہوگا کہ اپنے نئے دوست ایران اور پرانے اتحادی امریکہ کے درمیان افہام و تفہیم کو بروئے کار لانے کے لیے وہ کیا لائحۂ عمل اپناتی ہے۔

(مضمون نگار سفارتی امور کے ماہر ہیں)

حیدرآباد: ایک فضائی حادثے میں سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد ایران کے صدر کے عہدے پر نئے لیڈر کے انتخاب کا بہت انتظار کیا جا رہا تھا۔ بالآخر رن آف کے بعد دوسرے راؤنڈ کے لیے 6 جولائی کو نتائج سامنے آئے۔ 69 سال کی عمر میں، مسعود پیزشکیان، جو اپنے اصلاحی خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں، نے اپنے قدامت پسند مخالف سعید جلیلی کو 53.7 فیصد کے مقابلے میں 44.3 فیصد (تقریباً 30 لاکھ ووٹوں کے فرق سے) ہرایا جو کہ کل ووٹوں کا کم و بیش 10 فیصد ہے۔ تجزیہ نگار جتیندر کمار ترپا ٹھی نے نئے وزیر اعظم مسعود پیزشکیان ایران کی مابعد انقلاب تاریخ کے سب سے عمر رسیدہ صدر بن گئے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے دل کی سرجری کے ماہر، پیزشکیان پانچ مرتبہ ایرانی پارلیمنٹ کے رکن، دو کاؤنٹیوں کے گورنر اور ایران کے وزیر صحت رہ چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کون ہیں ایران کے نئے صدر ڈاکٹرمسعود پزیشکیان، کیا وہ اپنے اصلاحی ایجنڈے کو نافذ کر سکیں گے؟ - New Iran President

پیزشکیان کس سے ہیں متاثر

پیزشکیان سابق اصلاح پسند صدر روحانی سے متاثر ہیں اور ماضی میں دو بار وہ ایوان صدارت میں پہنچنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ پہلی بار 2013 میں جب انہیں اپنی امیدواری واپس لینا پڑی اور پھر 2021 میں، جب طاقتور گارڈین کونسل نے ان کا نام مسترد کر دیا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران، انہوں نے اپنے سخت گیر مخالفین کی تنقید کو اس وقت دعوت دی جب انہوں نے اعلان کیا کہ "طاقت کے استعمال سے مذہبی عقیدے کا نفاذ سائنسی طور پر ناممکن ہے"۔ واضح رہے کہ پارلیمان کے اسپیکر سمیت دیگر تمام بڑے امیدوار سعید جلیلی کے حق میں دستبردار ہو گئے تاکہ مقابلے کو واضح طور پر اصلاحات بمقابلہ روایت بنایا جا سکے۔

پیزشکیان کا حجاب پر کیا موقف ہے؟

پیزشکیان حجاب کے نفاذ پر گشتی پولیس کی موجودگی کے مخالف ہیں اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ کی پابندیوں میں نرمی کریں گے، اپنی کابینہ میں مزید خواتین اور قبائلیوں کو شامل کریں گے اور سب سے اہم یہ کہ وہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے، یعنی مشترکہ اور مربوط لائحہ عمل کے احیاء کے لیے کام کریں گے تاکہ ان کے ملک پر عائد اقتصادی بندشیں کم ہوسکیں جو جوہری عزائم کی وجہ سے عائد کی گئی ہیں۔ انہوں نے واضح طور "مغرب کے ساتھ تعمیری تعلقات" کے ذریعے "ایران کو تنہائی سے نکالنے" کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ اپنے مخالف امیدوار کے ساتھ انتخابی مباحثے میں، صدر منتخب نے دعویٰ کیا کہ بڑھتی ہوئی افراط زر (موجودہ 40 فیصد کے قریب) کو روکنے کا واحد طریقہ 200 بلین ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانا ہے جو کہ "دنیا کے ساتھ تعلقات کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ " واضح طور پر، اس نے چین، روس اور مٹھی بھر روایتی اتحادیوں سے آگے دو طرفہ تعلقات پر نظرثانی کرنے پر اپنی نگاہیں مرکوز کر رکھی ہیں۔

پیزشکیان سے ایران کو پاورفل بنانے کی توقعات

ایران کے اندر، پیزشکیان کی جیت پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں کے لیے، ان کے اقتدار میں آنے سے طویل مدتی اصلاحات کی امید پیدا ہوئی ہے، خاص طور پر 2022 میں ملک بھر میں حجاب مخالف مظاہروں کے نتیجے میں، کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ شاید ہی وہ کوئی بہتری لا سکیں۔ معروف ایرانی سیاسی مبصر مصدغ مصدغ پور کے مطابق، "لوگ اس وقت پرامید ہیں کہ وہ کچھ اچھی تبدیلیاں کر سکتے ہیں اور کچھ مسائل حل کر سکتے ہیں۔" اس امید کو پورا کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ملکی پالیسیوں میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آئینی دفعات اور رہبر (سپریم لیڈر) آیت اللہ علی خامنہ ای کی وسیع طاقت کے پیش نظر، انٹرنیٹ پر پابندی میں نرمی، کابینہ میں خواتین اور قبائلیوں کی نمائندگی میں اضافہ جیسی کچھ سماجی تبدیلیوں کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن حجاب جیسے زیادہ متنازعہ مسائل اور اعلیٰ عدلیہ اور پولیس کی سربراہی جیسے حساس معاملات کے ساتھ چھیڑنے کا امکان نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایران کے صدارتی انتخاب میں کسی کو بھی اکثریت نہیں ملی، دوبارہ ہوگی ووٹنگ - Iran Presidential Election

ایران پر مغربی ممالک کی پابندیوں سے کیا چھٹکارا ملے گا؟

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صدر کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ ملک کے سپریم لیڈر خود قدامت پسند ہیں اور صرف انہیں مسلح افواج، انٹیلی جنس، پولیس، عدلیہ، ریڈیو اور ٹی وی کے سربراہان اور گارڈین کونسل کے ارکان کی تقرری کا واحد اختیار حاصل ہے۔ مزید برآں، اس سال مارچ میں منتخب ہونے والی نئی پارلیمنٹ میں، سخت گیر اکثریت میں ہیں جس کی وجہ سے پیزشکیان کے لیے سیلاب جیسے پانی سے گزرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم، ایران پر مغربی ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے تباہ کن اثرات کے پیش نظر، خامنہ ای نئے صدر کو جے سی پی او اے کے احیاء کے لیے بات چیت کے لیے ایک چھوٹی سی راہ دے سکتے ہیں۔

لیکن اگر خامنہ ای پیزشکیان کے ذریعے امن کی خواہش کا پیغام امریکہ تک پہنچاتے بھی ہیں تو اس طرح کی کوشش کا کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے آنے کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ایران نے تقریباً 90 فیصد یورینیم کی افزودگی حاصل کر لی ہے، جو کہ بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس صورتحال میں جے سی پی او اے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی اس سال کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیش نظر دباؤ کا شکار ہے اور یقیناً ایران کی شکل میں امریکہ ایسا کوئی اقدام اٹھانا نہیں چاہے گا جس کے ٹھوس نتیجہ حاصل ہونے کا یقین نہ ہو۔ فی الحال امریکہ چاہے گا کہ اسے مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی ممکن بنانے کا موقع ملے جسے بائیڈن انتظامیہ اپنے کارنامہ کے طور متعارف کرسکے۔

پیزشکیان کی کامیابی پر پڑوسی ممالک کا ردعمل

اگرچہ بہت سے ممالک کے ساتھ ساتھ چین، روس، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وینزویلا نے اس انتخاب کو ایک ہمہ جہتی فتح کے طور پر سراہا ہے اور علاقائی امن کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، لیکن مغربی دنیا کے ردعمل کا ابھی انتظار ہے۔ عراق جیسے کچھ ممالک نے اس انتخاب پر بہت محتاط ردعمل کا اظہار کیا ہے جو صرف مبارکبادی کے پیغامات تک ہی محدود ہے۔ مشرق وسطیٰ کے دوسرے بڑے ممالک جیسے مصر اور اردن کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم، امریکی دفتر خارجہ نے انتخابات کو 'آزادانہ یا منصفانہ ' قرار نہیں دیا اور اعلان کیا کہ "اس سے ایران کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔" وزیر اعظم مودی نے منتخب صدر کو مبارکباد دینے کے لیے پہل کی اور اپنے پیغام میں کہا کہ وہ عوام اور خطے کے مفاد کے لیے ہمارے دوستانہ اور دیرینہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے منتظر ہیں۔

بھارت ایران تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

پیزشکیان کا انتخاب ہندوستان ایران تعلقات پر کیا اثر ڈالے گا؟ ہمارے ایران کے ساتھ پہلے ہی مستقل طور پر اچھے تعلقات ہیں۔ سوائے چابہار بندرگاہ کے انتظام کے حوالے سے بعض اوقات غلط فہمیوں کے جن کو دور کر لیا گیا ہے۔ بھارت نے کچھ تاخیر کے بعد ایک بار پھر چابہار-زاہدان ریل پروجیکٹ میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تاہم، اگر نئے ایرانی صدر جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن یا جے سی پی او اے، کو بحال کرکے ایران کو تنہائی سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں پابندیوں میں نرمی آئے گی، جس کے نتیجے میں، ہمارے لیے ایران سے خام تیل کی درآمد دوبارہ کھل جائے گی۔

واضح رہے کہ ایران پر مغربی پابندیوں سے قبل یہ بھارت کے لیے خام تیل کا ایک بڑا اور بعض اوقات سب سے بڑا ذریعہ رہا تھا۔ یہ ایران میں مزید انفراسٹرکچر کی ترقی میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرے گا جو افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ہماری تجارت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مزید برآں، یہ ہمیں ایران-پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن کو بحال کرنے کا موقع فراہم کرے گا اور ایران کو اس بات پر قائل کرے گا کہ وہ پاکستان پر 2755 کلومیٹر طویل منصوبے میں سے اپنا حصہ (781 کلومیٹر) مکمل کرنے کے لیے دباؤ بڑھائے۔ اگر ہم اس منصوبے میں دوبارہ شامل ہوتے ہیں اور اگر ایران پاکستان کو اپنا وعدہ پورا کرنے پر مجبور کرتا ہے تو ہماری توانائی کی رکاوٹیں نمایاں طور پر دور ہو جائیں گی۔

لیکن آخر میں، یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ ایران کی نئی انتظامیہ کس حد تک مغرب کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہے اور اس کے جواب میں مغرب کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ نئی صورتحال مملکت سعودی عرب کے لیے بھی ایک امتحان ہے کیونکہ دیکھنا یہ ہوگا کہ اپنے نئے دوست ایران اور پرانے اتحادی امریکہ کے درمیان افہام و تفہیم کو بروئے کار لانے کے لیے وہ کیا لائحۂ عمل اپناتی ہے۔

(مضمون نگار سفارتی امور کے ماہر ہیں)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.