ETV Bharat / literature

جونپور پر "شیراز ہند جونپور" کے عنوان سے معروف شاعر احمد نثار کی نظم - Poetry on Jaunpur - POETRY ON JAUNPUR

جونپور علم و فن کا مرکز رہا جس بنا پر مغل بادشاہ شاہجہاں نے اسے شیراز ہند کا لقب دیا یہاں پر موجود تاریخی عمارتیں اور اس کے کھنڈرات آج جونپور کی رفعت و بلندی کی مثال بیان کر رہی ہیں۔

URDU POET AHMED NISAR
URDU POET AHMED NISAR (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 16, 2024, 4:24 PM IST

جونپور:- ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور جس کی بنیاد فیروز شاہ تغلق نے اپنے چچا زاد بھائی جونا شاہ کے نام پر تقریباً 1360 میں رکھی تھی جہاں پر تغلق خاندان کے بعد شرقی سلطنت کی آزاد حکومت قائم ہوئی اور انہوں نے جونپور میں تقریباً 100 سال تک حکومت کی،جونپور علم و فن کا مرکز رہا جس کی بناء پر مغل بادشاہ شاہجہاں نے اسے شیراز ہند کا لقب دیا۔ یہاں پر موجود تاریخی عمارتیں اور اس کے کھنڈرات آج جونپور کی رفعت و بلندی کی مثال بیان کر رہی ہیں، جونپور پر بہت سے شعراء نے اپنی نظمیں اور ادباء نے مضامین لکھے ہیں جن میں انہوں نے جونپور کی خوبصورتی اور دریائے گومتی کی روانی اور شاہی پل کی عظمت کا ذکر کیا ہے اسی ضمن میں جونپور کے مشہور و معروف شاعر احمد نثار جونپوری نے "شیراز ہند جونپور" کے عنوان سے نظم کہی ہے جو آپ سامعین کی خدمت میں حاضر ہے۔

URDU POET AHMED NISAR (Etv bharat)



شیراز ہند جونپور

آیئے تاریخ کی جلوہ گری میں لے چلیں
قلعہ فیروز کی بارہ دری میں لے چلیں
وہ جو اب باقی نہیں ہے اس صدی میں لے چلیں

گنگناتی موج آب گومتی میں لے چلیں

نور و نکہت کا حسیں غماز کہتے ہیں جسے
جون پور اک وادی شیراز کہتے ہیں جسے

ایسے جوناشاہ نے رکھی بنائے جون پور
مصر کے ازہر تلک پہونچی نوائے جون پور
آشنائے علم ٹھہرا آشنائے جون پور
زینتِ علم و ادب ہیں نقش ہائے جون پور

ارتقائے علم و عرفاں ارتقائے جون پور
تمغہ شیراز سجتا ہے برائے جون پور

جلوه گاه افتخار و منزلت تھا جون پور
سر بلند ایسا کہ عالی مرتبت تھا جون پور
وہ بھی کیا دن تھے کہ دارالسلطنت تھا جون پور

قلب سے نکلی نوائے معرفت تھا جون پور

وہ شہابی ہونٹ وہ سوز رشیدی کیا ہوا
جب نہیں نکلا تو ارمان فریدی کیا ہوا

ایزدی،سید محمد،حمزه چشتی،دانیال
اس زمیں پر آسماں بن کر رہے یہ باکمال
جذب کی کیفیتوں پر پر تھا تصوف کا جمال
ہم کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں مثال بے مثال

کوئی عیسیٰ تاج ہے تو کوئی ہے بینائے دل
دفن اس میں قید ہیں کتنے ہی بزم آرائے دل

مرکز فکر و نظر سرچشمہ علم و ہنر
داستان اپنی سناتا ہوں بالفاظ دگر
نقش ہیں افتائے عالمگیر کے اوراق پر
مفتیانِ شہر کے ادراک کے لعل و گہر

کیسی عظمت ہائے کیا دانشوری کیا شان تھی

آگہی ہی ایک مدت تک مری پہچان تھی

لمحہ لمحہ لحظہ لحظہ جستہ جستہ سر بہ سر

جیسے کوئی رزم گاہوں میں ہے سینہ سپر
اب بھی شاہی پل میں عہد اکبری ہے جلوہ گر
عید گہ دیتی ہے اب بھی اپنی عظمت کی خبر

دیکھنے میں مسجدیں ویسے تو بے مینار ہیں
اپنی رفعت میں مگر ہر عہد کا معیار ہیں

عہدِ حاضر میں بھی آئینوں کے جوہر کم نہیں
شعر گوئی شعر فہمی کے بھی منظر کم نہیں
آتشی و امن کے شفاف تیور کم نہیں
شہر اپنا علم و دانش سے منور کم نہیں

شاعروں،سائنس دانوں کی دھمک ہے آج بھی
جون پوری راگ کے گل میں مہک ہے آج بھی

ہر جگہ موجود ہیں دانشوروں کے نقشِ پا
خاک سے بھی آرہی ہے دل دھڑکنے کی صدا
یوں ہوئی ہے مشترک تہذیب کی نشوونما
سب ہیں یا اک دوسرے کے ہم خیال و ہمنوا

برکتیں شیر وشکر ہونے کی ہم سے پوچھئے

عظمتیں اہل نظر ہونے کی ہم سے پوچھئے

ہاں یہی ہے نکتہ دان فکر وفن کی سرز میں
اہل تقویٰ پالکیوں میں نکلتے تھے یہیں
اہل حق اہل تمدن اہل ایماں اہل دیں
سجدہ گاہیں صف بہ صف ہیں انکے سجدوں کی امیں

فلسفوں میں منطقی فرماں روائی زندہ باد
شیت و محمود و سلیمان و فدائی زنده باد

جسم تو باقی ہے لیکن آتما ملتی نہیں
اب کوئی تصویر پیش آئینہ ملتی نہیں
روشنی کیسے ہو شمع پر ضیا ملتی نہیں
اب کوئی شئی بھی حقیقت آشنا ملتی نہیں

ہم مثال علم و عرفاں تھے زمانے کے لئے
اب تو آنسو بھی نہیں ملتے بہانے کے لئے

جونپور:- ریاست اتر پردیش کا ضلع جونپور جس کی بنیاد فیروز شاہ تغلق نے اپنے چچا زاد بھائی جونا شاہ کے نام پر تقریباً 1360 میں رکھی تھی جہاں پر تغلق خاندان کے بعد شرقی سلطنت کی آزاد حکومت قائم ہوئی اور انہوں نے جونپور میں تقریباً 100 سال تک حکومت کی،جونپور علم و فن کا مرکز رہا جس کی بناء پر مغل بادشاہ شاہجہاں نے اسے شیراز ہند کا لقب دیا۔ یہاں پر موجود تاریخی عمارتیں اور اس کے کھنڈرات آج جونپور کی رفعت و بلندی کی مثال بیان کر رہی ہیں، جونپور پر بہت سے شعراء نے اپنی نظمیں اور ادباء نے مضامین لکھے ہیں جن میں انہوں نے جونپور کی خوبصورتی اور دریائے گومتی کی روانی اور شاہی پل کی عظمت کا ذکر کیا ہے اسی ضمن میں جونپور کے مشہور و معروف شاعر احمد نثار جونپوری نے "شیراز ہند جونپور" کے عنوان سے نظم کہی ہے جو آپ سامعین کی خدمت میں حاضر ہے۔

URDU POET AHMED NISAR (Etv bharat)



شیراز ہند جونپور

آیئے تاریخ کی جلوہ گری میں لے چلیں
قلعہ فیروز کی بارہ دری میں لے چلیں
وہ جو اب باقی نہیں ہے اس صدی میں لے چلیں

گنگناتی موج آب گومتی میں لے چلیں

نور و نکہت کا حسیں غماز کہتے ہیں جسے
جون پور اک وادی شیراز کہتے ہیں جسے

ایسے جوناشاہ نے رکھی بنائے جون پور
مصر کے ازہر تلک پہونچی نوائے جون پور
آشنائے علم ٹھہرا آشنائے جون پور
زینتِ علم و ادب ہیں نقش ہائے جون پور

ارتقائے علم و عرفاں ارتقائے جون پور
تمغہ شیراز سجتا ہے برائے جون پور

جلوه گاه افتخار و منزلت تھا جون پور
سر بلند ایسا کہ عالی مرتبت تھا جون پور
وہ بھی کیا دن تھے کہ دارالسلطنت تھا جون پور

قلب سے نکلی نوائے معرفت تھا جون پور

وہ شہابی ہونٹ وہ سوز رشیدی کیا ہوا
جب نہیں نکلا تو ارمان فریدی کیا ہوا

ایزدی،سید محمد،حمزه چشتی،دانیال
اس زمیں پر آسماں بن کر رہے یہ باکمال
جذب کی کیفیتوں پر پر تھا تصوف کا جمال
ہم کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں مثال بے مثال

کوئی عیسیٰ تاج ہے تو کوئی ہے بینائے دل
دفن اس میں قید ہیں کتنے ہی بزم آرائے دل

مرکز فکر و نظر سرچشمہ علم و ہنر
داستان اپنی سناتا ہوں بالفاظ دگر
نقش ہیں افتائے عالمگیر کے اوراق پر
مفتیانِ شہر کے ادراک کے لعل و گہر

کیسی عظمت ہائے کیا دانشوری کیا شان تھی

آگہی ہی ایک مدت تک مری پہچان تھی

لمحہ لمحہ لحظہ لحظہ جستہ جستہ سر بہ سر

جیسے کوئی رزم گاہوں میں ہے سینہ سپر
اب بھی شاہی پل میں عہد اکبری ہے جلوہ گر
عید گہ دیتی ہے اب بھی اپنی عظمت کی خبر

دیکھنے میں مسجدیں ویسے تو بے مینار ہیں
اپنی رفعت میں مگر ہر عہد کا معیار ہیں

عہدِ حاضر میں بھی آئینوں کے جوہر کم نہیں
شعر گوئی شعر فہمی کے بھی منظر کم نہیں
آتشی و امن کے شفاف تیور کم نہیں
شہر اپنا علم و دانش سے منور کم نہیں

شاعروں،سائنس دانوں کی دھمک ہے آج بھی
جون پوری راگ کے گل میں مہک ہے آج بھی

ہر جگہ موجود ہیں دانشوروں کے نقشِ پا
خاک سے بھی آرہی ہے دل دھڑکنے کی صدا
یوں ہوئی ہے مشترک تہذیب کی نشوونما
سب ہیں یا اک دوسرے کے ہم خیال و ہمنوا

برکتیں شیر وشکر ہونے کی ہم سے پوچھئے

عظمتیں اہل نظر ہونے کی ہم سے پوچھئے

ہاں یہی ہے نکتہ دان فکر وفن کی سرز میں
اہل تقویٰ پالکیوں میں نکلتے تھے یہیں
اہل حق اہل تمدن اہل ایماں اہل دیں
سجدہ گاہیں صف بہ صف ہیں انکے سجدوں کی امیں

فلسفوں میں منطقی فرماں روائی زندہ باد
شیت و محمود و سلیمان و فدائی زنده باد

جسم تو باقی ہے لیکن آتما ملتی نہیں
اب کوئی تصویر پیش آئینہ ملتی نہیں
روشنی کیسے ہو شمع پر ضیا ملتی نہیں
اب کوئی شئی بھی حقیقت آشنا ملتی نہیں

ہم مثال علم و عرفاں تھے زمانے کے لئے
اب تو آنسو بھی نہیں ملتے بہانے کے لئے

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.