سرینگر: جموں وکشمیر کے نسائی ادب کی جب ہم بات کرتے ہیں تو دیگر خواتین قلمکار کے ساتھ افسانہ نگار،محقق اور تنقید نگار ڈاکٹر رافعہ ولی کا نام بھی فہرست ہے۔ رافعہ ولی اپنے منفرد اور جداگانہ تحریروں کے ذریعے بہت کم عرصے میں افسانہ نگاری میں اپنی پہنچان بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور ان کا افسانہ "کھیت" انگریزی کے علاوہ اب نیپالی اور کیناڈین زبان میں بھی ترجمہ کیا جارہا ہے۔ ایسے میں آنے والے وقت میں ان کی تنقید، تحقیق اور افسانوں مجموعہ پر مبنی تین کتابیں مناظر عام پر آرہی ہیں۔
ای ٹی وہ بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے ڈاکٹر رافعہ ولی کے ادبی سفر اور ان کے منفرد افسانوی تحریروں سے متعلق خصوصی گفتگو کی۔
شمالی کشمیر کے کراکشون سوپور کی رہنے والی ڈاکٹر رافعہ ولی نے کہا کہ بچپن سے ہی انہیں لکھنے پڑھنے کا شوق رہا ہے، وہیں مزاج زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے آس پاس کے معاملات و واقعات کو بڑی باریکی پر غور و فکر کرکے قلم کے سہارے کاغذ پر اتارنا پہلے سے ہی ایک عادت رہی ہے۔ایسے میں جب بچپن میں کبھی کوئی چیز چھین جاتی تھی، تو اس کا غبار کافی دیر تک دل پر چھایا رہتا تھا اور اس غبار کو باہر نکالنے کے لیے بھی میں قلم اور کاغذ ہی سہارا لیتی تھی۔تاہم لکھنے کا یہ شوق اور مزاج کی حساسیت کب کسی فن کی شکل اختیار کرے گا اس کی کوئی علمیت نہیں تھی۔
رافعہ ولی نے اردو میں پی ایچ ڈی کیا اور یہ بطور استاد بھی اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ مطالعے اور مشاہدات پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے اس خاتون افسانہ نگار کی تحریریں یہاں کے دیگر خواتین افسانہ نگاروں کے مقابلے میں موضوعات اور کردار کے اعتبار سے بالکل مخلتف اور جداگانہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ یہاں کی خوبصورتی، حسن و جمال ،رومانیت اور خواتین پر گزرنے والے واقعات سے پرے اپنی تحریریں سامنے لاتی ہیں ۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ مطلعے ،مشاہدے اور دلائل پر مبنی میری تحریریں ہوتی ہیں۔ جو کہ میرے افسانوں کو دوسرے سے زرا ہٹ کے بناتے ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ مطالع صرف کتابوں کا ہی نہیں ہوتا ہے۔بعض وقت میں اپنے افسانوی کردار کے لیے ان لوگوں کے پاس بھی جاتی ہوں،جن کے پاس اکثر لوگ بھیٹنے تک پسند نہیں کرتے ہیں۔
"شبو" نامی اپنے ایک افسانے کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جامع مسجد دلی کی سیڑھیوں پر ایک عورت بھیک مانگتی تھی۔میں نے مشاہدے کی خاطر ایک ہفتہ اس کے ساتھ گزارا،تاکہ اس عورت کے اندر کے نفسیات کو جان کر کردار کو بہتر طریقے سے تحریری شکل دے دو۔ ایسے میں جب وہ افسانہ منظر عام پر آیا تو لوگوں نے اس افسانے کو بے حد پسند کیا
رافعہ ولی کہتی ہیں کہ میں ہر ایک انسان کی کہانی جانے کی کوشش کرتی ہوں، جو کہ اس کے اندر چپھی ہوئی ہوتی ہے سطحی طور کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو کہ باہر سے تو بڑے خوش دکھتے ہیں لیکن اندر سے ان کی کہانیاں کچھ الگ ہی ہوتی ہیں۔ویسے کرداد مجھے اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں اور لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ایک افسانہ لکھنے کے لئے 6 سے 7 مہینے مطلع میں گزر جاتے ہیں، ایسے میں مطلع اور مشاہدہ ہی میرے افسانوں کو دوسروں سے مختلف بناتا ہے۔
مزید پڑھیں: وادی کشمیر میں اردو ادب اور افسانہ نگاری کا مستقبل تابناک ہے، وحشی سعید
رافعہ ولی کے تقریباً 22 افسانے اب تک منظر عام پر آچکے ہیں،جوکہ مختلف موضوعات پر اپنی الگ الگ کہانیاں پیش کرتے ہیں۔"کھیت" رافیہ کا وہ افسانہ ہے جس سے انہیں قومی سطح پر بحثیت افسانہ نگار پہنچان دلائی اور یہ انگریزی کے علاوہ اب نہ صرف نیپالی زبان بلکہ کیناڈین میں بھی ترجمہ کیا جارہا ہے،جس سے عیاں ہوجاتا ہے کہ جموں وکشمیر کے افسانہ نگاروں کو اب بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور اب وہ دور نہیں ہے جب یہاں کے افسانہ نگار بھی بین الاقوامی سطح پر اپنی پہنچان بنانے میں کامیاب ہوجائے گے۔