گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں سہ روزہ موٹیویشنل ورکشاپ ہوا۔ اس میں روحانی خطاب، مراقبہ دھیان لگانا اور ساتھ ہی جسمانی فٹننس کے سیشن ہوئے۔ اس میں خاص مہمان ڈاکٹر سعادت اللہ خان تھے جن کا تعلق بنگلور سے ہے۔ تاہم وہ موٹیویشنل اسپیچ کے لیے ملک اور بیرون ممالک میں معروف و مقبول ہیں۔ گیا میں منعقدہ سہ روزہ روحانی تربیتی ورکشاپ میں مسلم معاشرے کی معزز شخصیات کے ساتھ عام و خاص مرد وخواتین کی شرکت ہوئی اور وقفہ وقفہ سے ان کے ذریعہ مقرر خصوصی سے اپنے مسائل، ذہنی دباؤ اور پریشانیوں سے نجات اور سد باب کے ساتھ قلبی سکون حاصل کرنے کے احساس و طریقوں پر سوالات بھی پوچھے۔ ای ٹی وی بھارت اردو نے سعادت اللہ خان سے ذہنی تناؤ اور پریشانیوں کے ساتھ موجودہ صورتحال اور حوصلہ افزائی کی ضرورت اور اہمیت پر خصوصی گفتگو کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ڈاکٹر سعادت اللہ خان نے دوران گفتگو بتایا کہ وہ گزشتہ 30 برسوں سے روحانی فکر اور نظریہ کا احساس دلانے کے لیے خطاب دے رہے ہیں، 20 سے زیادہ ممالک میں ان کا روحانی تربیتی پروگرام ہوچکے ہیں۔ انسان کے اندر انسانیت ہو اور وہ ہر انسان کو خواہ ان کا تعلق کسی ذات برادری مذہب علاقہ سے ہو اسے وہ انسان کے نظریہ سے دیکھیں تو کئی تنازعات یوں ہی ختم ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ روحانی فکر و خیال اور نظریہ سے ذہنی دباؤ، برائیوں اور برے اثرات و حالات سے نجات ملے گی۔ انسانوں کو انسانیت کا پیغام سمجھنا ہوگا۔ اسلام میں انسانیت کی اہمیت اور ضرورت پر تفصیل بتائی گئی ہے۔ ہمیں ظاہر کو درست کرنے کے لیے دل کی گہرائیوں سے باطن کا احساس کرنا ہوگا۔
ہر پریشان انسان کوخود کا محاسبہ کرنا ہوگا
ڈاکٹر سعادت اللہ خان نے کہا کہ آج کے حالت میں ہر انسان پریشان ہے۔ ہر جگہ بچے سے لے کے بڑوں تک ڈپریشن، اسٹریس اور ذہنی مشکلات اور مسائل کے شکار ہیں اور وہ اس کو حل نہیں کر سک رہے ہیں، طبی علاج کے لیے سائیکاٹرسٹ اور دیگر کے پاس جارہے ہیں لیکن انہیں سکون نہیں مل رہا ہے۔ تاہم کوئی سمجھنے کو تیار نہیں کہ پورے پرابلم دماغ کی پیدوار ہیں ۔جو بھی مسائل ہیں اس کو خود انسان نے پیدا کیا ہے اور اسے معلوم تک نہیں ہوتا ہے کہ وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔ ورکشاپ میں یہ دکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ کسی اور کی وجہ سے نہیں بلکہ تم خود مسائل کرییٹ کر رہے ہو۔ جب ہم اپنا محاسبہ کریں گے تو ہمیں اپنی کمی اور مسائل کے تعلق سے احساس ہوگا۔
ورکشاپ کا بھی مقصد یہی ہوتا ہے اور تین دن کا محاسبہ ہوتا ہے۔ یہ اندر جا کے جھانک کے دیکھتے ہیں کہ یہ مسائل جتنے بھی ہوئے ہیں، میں نے خود کرییٹ کیا ہے اور وہ احساس آتے ہی آنکھ کھل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ہے کہ اللہ نے ہمیں انسان بنا کے دنیا میں بھیجا ہے تو ہمیں انسان بن کے رہنا ہے۔ جب انسان بن کے رہیں گے تو سب انسانوں کو انسان جیسا دیکھ کے ان سے رویہ رکھیں گے۔ ایسا ہوگا تو ہمارے ملک میں انسانیت آئے گی اور یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر کی درستگی کے لیے باطن یعنی دل کی پاکیزگی ضروری ہے اور ہم نے اپنا محاسبہ کرلیا تو مسئلہ کا حل خود بخود نکل جائے گا۔
سبھی روحانیت کا احساس کرتے ہیں
ڈاکٹر سعادت اللہ خان نے کہا کہ روحانی ورکشاب میں سبھی مسلکوں اور مذہب کے لوگ جس میں ہندو، سکھ اور عیسائی وغیرہ بھی آتے ہیں۔ ہر مذہب اور مسلک کے لوگ آتے ہیں کیونکہ ہم اندر دل سے سکون خوشی اور تازگی انسانیت کی بات کرتے ہیں۔ اخلاق، محبت اور پیار کی باتیں کرتے ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور سبھی سکون کی تلاش میں ہیں۔
حالات سے گھبرائیں نہیں
ڈاکٹر سعادت اللہ خان نے موجودہ حالات پر کہا کہ دیکھیں حالات تو ہر زمانے میں الگ الگ اچھے اور برے ہوئے ہیں لیکن ہم سمجھ لیں کہ حالات کے وجہ سے ہم ایسے مسائل کے شکار ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ ایک اصول ہے کہ ظاہر کے عمل جو ہوتے ہیں حالات ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں وہی ہمارا ایکشن ہوتا ہے۔ جیسے کہ اگر ہمیں حالات ڈر دکھا رہے ہیں تو ہمیں ڈر کا احساس ہوگا لیکن وہی اگر ہم حقیقت کو دل سے دیکھیں گے روحانی طریقے سے دیکھیں گے تو ہمیں ڈر کا احساس نہیں ہوگا۔ روحانی فکر ہوگی اور نظریہ ہوگا کہ ہم زمانے سے نہیں ڈر سکتے ہم صرف اللہ سے ڈرتے ہیں اور ڈریں گے تو دنیا کے کیسے بھی حالات ہوں ہمیں ڈر حالات سے نہیں لگے گا۔ ہم مسائل کاسامنا کریں گے۔
غلط فہمی کا شکار نہ ہوں نوجوان
نوجوانوں کے تعلق سے اپنے اہم پیغام میں ڈاکٹر سعادت اللہ خان نے کہا کہ غلط فہمی کی وجہ سے ہم خود کو مسائل اپنے اوپر مسلط نہیں کریں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو پریشانی اور مسائل کا سامنا ہمیں ہی کرنا ہوگا۔ یہ بات ضرور ہے کہ کچھ ایسے معاملے بھی پیش آئے جس میں بے قصور نوجوان زیادتی کا شکار ہوئے لیکن اس کے لیے ہم انصاف کو اپنائیں گے۔ عدالتوں پر اعتماد رکھیں گے۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم خود بخود مسائل کرییٹ نہیں کریں اور غلط فہمیوں کا شکار نہیں ہوں۔ آخر میں ہماری کوشش یہی ہو کہ ملک کی سالمیت و انسانیت کی بقاء حب الوطنی اور ملک کی ترقی و بہبود میں نمایاں کردار ادا کریں۔