ETV Bharat / literature

اُس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں: امیر مینائی - Urdu poet Amir Meenai - URDU POET AMIR MEENAI

امیر مینائی کا شمار اردو ادب کے مشہور و معروف شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ نے دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کی۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں' ملاحظہ فرمائیں...

Urdu poet Amir Meenai
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں: امیر مینائی (Photo: Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 5, 2024, 12:55 PM IST

حیدرآباد: امیر مینائی اردو کے مشہور و معروف شاعر و ادیب تھے۔ وہ 1828ء میں شاہ نصیر الدین شاہ حیدر نواب اودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مفتی سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے تعلیم حاصل کی۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت کی۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔

سال 1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کی۔ 1857ء کے بعد نواب یوسف علی خاں کی دعوت پر رامپور چلے گئے۔ ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے اُن کو اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رامپور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد آگئے جہاں کچھ دن قیام کیا تھا کہ بیمار پڑ گئے اور وہیں انتقال ہو گیا۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں' ملاحظہ فرمائیں...

  • غزل

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا

کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں

ضبط کمبخت نے یاں آ کے گلا گھونٹا ہے

کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں

نقش پا دیکھ تو لوں لاکھ کروں گا سجدے

سر مرا عرش نہیں ہے جو جھکا بھی نہ سکوں

بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنے قلم سے مجھ کو

یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں

اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے مرے زانو پر

اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں

یہ بھی پڑھیں:

لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں: بہادر شاہ ظفر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی: پروین شاکر

حیدرآباد: امیر مینائی اردو کے مشہور و معروف شاعر و ادیب تھے۔ وہ 1828ء میں شاہ نصیر الدین شاہ حیدر نواب اودھ کے عہد میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے مفتی سعد اللہ اور ان کے ہمعصر علمائے فرنگی محل سے تعلیم حاصل کی۔ خاندان صابریہ چشتیہ کے سجادہ نشین حضرت امیر شاہ سے بیعت کی۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد ہوئے۔

سال 1852ء میں نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور حسب الحکم دو کتابیں شاد سلطان اور ہدایت السلطان تصنیف کی۔ 1857ء کے بعد نواب یوسف علی خاں کی دعوت پر رامپور چلے گئے۔ ان کے فرزند نواب کلب علی خاں نے اُن کو اپنا استاد بنایا۔ نواب صاحب کے انتقال کے بعد رامپور چھوڑنا پڑا۔ 1900 میں حیدرآباد آگئے جہاں کچھ دن قیام کیا تھا کہ بیمار پڑ گئے اور وہیں انتقال ہو گیا۔ آئیے آج کے شعر و ادب میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں' ملاحظہ فرمائیں...

  • غزل

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا

کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں

ضبط کمبخت نے یاں آ کے گلا گھونٹا ہے

کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں

نقش پا دیکھ تو لوں لاکھ کروں گا سجدے

سر مرا عرش نہیں ہے جو جھکا بھی نہ سکوں

بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنے قلم سے مجھ کو

یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں

اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے مرے زانو پر

اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں

یہ بھی پڑھیں:

لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں: بہادر شاہ ظفر

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی: پروین شاکر

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.