اندور: ریاست مدھیہ پردیش کے صنعتی شہر اندور میں تنظیم قافلہ محبتوں کی جانب سے "یاد راحت عنوان" سے منعقدہ مشاعرے اور کوی سمیلن میں بجلی گل ہونے کے بعد بھی مشاعرہ جاری رہا اور سامعین اندھیرے میں ہی داد و تحسین سے نوازتے رہے۔ عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر راحت اندوری کی حیات میں کئی مشاعروں میں شرکت کسی روشنی سے کم نہ تھی۔ مشاعرے میں ان کی موجودگی کامیابی کی سند ہوا کرتی تھی۔ ان کے جشن سے لے کر ان کی یاد میں منعقدہ کل ہند مشاعرے نے ایک تاریخ رقم کردی۔ جو کئی دہائیوں تک یاد رکھی جائے گی۔ دراصل ان کے آبائی شہر اندور میں تنظیم قافلہ محبت نے ان کی یاد میں "یاد راحت عنوان" سے کل ہند مشاعرہ اور کوی سمیلن کا انعقاد کیا گیا۔ جس سے ان کی مداحوں میں زبردست خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس مشاعرے کی دیوانگی کا عالم یہ تھا کہ لوگ مشاعرے سے قبل ہی آڈیٹوریم پہنچ گئے تھے۔ وہیں ایک دیوانہ تو جدید دور میں بھی اونٹ پر سوار ہو کر مشاعرہ سننے پہنچا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
اندور میں کل ہند مشاعرے کا انعقاد
جتنی سامعین کی تعداد آڈیٹوریم میں تھی اتنی ہی آڈیٹوریم کے باہر بھی داخل ہونے کے انتظار میں تھی۔ مشاعرے کا آغاز شمع روشن ہونے کے بعد ہوا لیکن جیسے ہی ایک دو شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ہی تھا کہ لائٹ گل ہو گئی اور آڈیٹوریم میں اندھیرا چھا گیا۔ صرف مائیکرو فون اور اسٹیج پر مختصر روشنی تھی۔ اس کے بعد بھی مشاعرہ شمع کی روشنی میں جاری رہا۔ سامعین اندھیرے میں ہی بیٹھ کر شعرا کرام کو سن رہے تھے اور داد و تحسین کی صدائیں بلند کر رہے تھے۔ یہ شاید مشاعرہ تاریخ میں پہلا موقع ہوگا جب شاعر اپنے اشاروں سے آڈیٹوریم میں اجالا پھیلا رہے تھے اور سامعین جگنو کی شکل میں داد و تحسین سے روشنی برسا رہے تھے۔
شاعر شکیل اعظمی کے آخری اشعار کے بعد مائکرو فون کا بھی پاور چلا گیا تھا۔ مگر سامعین کی ادبی پیاس ابھی بھی باقی تھی اور وہ مسلسل کلام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مگر بغیر مائیکرو فون کے تمام لوگوں تک آواز پہنچنا زیادہ مشکل تھا۔ لہٰذا ناظم مشاعرہ کو اختتام کا اعلان کرنا پڑا۔ حالانکہ سامعین اس اندھیرے کی وجہ سے اپنی پیاس نہیں بجھا پائے مگر جو روشنی لے کے گئے اس سے مستقبل میں روشنی ضرور ملے گی۔