سرینگر: ادبی مرکز کمراز کے سرپرست اور کلچرل اکیڈمی کے سابق سیکریٹری ڈاکٹر رفیق مسعودی نے سبھی نو منتخب قانون ساز اسمبلی کے ارکان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی مادری زبان " کشمیری" میں حلف لیں۔ ایسے میں ڈاکٹر رفیق مسعودی نے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبدللہ،پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر طارق حمید قرہ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی پر زور دیا کہ وہ اپنے اپنے منتخب رکن اسمبلی کو ہدایت دیں کہ وہ اپنی مادری زبان" کشمیری" میں حلف لیں اور یہ کشمیری زبان و ثقافت کے تئیں ان کی جانب سے محبت اور سنجیدگی کا مظاہرہ ہوگا۔
انہوں نے یاد لایا کہ آغا روح اللہ مہدی نے پارلیمٹ میں کشمیری زبان میں حلف اٹھا کر ایک تاریخ رقم کی۔ جس نے نہ صرف "کشمیری زبان" کی نمائندگی ہوئی بلکہ ایک اعلی مثال بھی قائم ہوئی۔ غور طلب ہے کہ ان اسمبلی انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران مادری زبان "کشمیری" بولنے اور اس کے صیحیح الفاظ پیش کرنے کے تعلق سے کئی دلچسپ واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں نہ صرف محبوبہ مفتی کی صاحبزادی اور پی ڈی پی امیدوار التجا مفتی اپنے ٹرول ہوئی بلکہ بننے والی نئی حکومت کے وزیر اعلی عمر عبدللہ بھی اپنی تقریر اور اور نعروں پر ٹرول ہوئے تھے۔
وسطی کشمیر کے گاندربل میں عمر عبدللہ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جذباتی انداز میں لوگوں سے اپنی ٹوپی ہاتھوں میں لیے ووٹ ڈالنے کی اپیل کرتے ہوئے کشمیری زبان میں کہا کہ" مینس دستارس تہ مانیہ ٹوپس کریو راچھ"ایسے میں انہوں نے کشمیری زبان کے اصل لطف" ٹوپہ" (ٹوپی) کے بجائے" ٹوپس" کا استعمال کیا جس پر انہیں نہ صرف پیپلز کانفنرس کے سجاد لون نے تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ عمر عبدللہ سوشل میڈیا پر بھی کئی دنوں تک ٹرول ہوئے۔
اسی طرح پی ڈی پی کی التجا مفتی نے بھی جنوبی کشمیر میں ایک انتخابی ریلی کے دوران اپنی جیت کا دعوی کا نعرہ لگاتے ہوئے کشمیری زبان میں" زیون ہو زیون" (جیت گئے جیت) کے بجائے زون ہو زون ہو کا نعرہ بلند کیا۔ ایسے میں یہ صاف واضح ہوا کہ کشمیر کے کئی اہم سیاست دان اور مستقبل کے سیاسی چہرے اپنی مادری زبان سے ناواقف او نناآشنا ہیں وہ اپنی کشمیری زبان میں نہ تو بہتر طور لوگوں میں تقریر کر پاتے ہیں اور نہ ہی کشمیری الفاظ صحیح طرح بول پاتے ہیں۔
حال ہی میں پی ڈی صدر محبوبہ مفتی نے پارٹی تقریب میں اپنی جماعت کے رہنماؤں، کارکنان اور عام لوگ کے سامنے کشمیری زبان کے بارے میں یہ بولتی ہوئی سنی گئی کہ اردو اور انگریزی کے علاوہ خدارا گھر میں کشمیری زبان میں بات کریں تاکہ ہماری نئی نسل بھی اپنی مادری زبان سے واقف ہوں۔ لیکن محبوبہ مفتی کے اس بیان کے برعکس ہم نے یہ دیکھا کہ ان کی صاحبزادی کشمیری کا ایک لفظ بھی بہتر طور ادا نہیں پاتی ہے۔
بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف کشمیری سیاستدان بلکہ عام لوگوں پر بھی یہ زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی مادری زبان کے بولنے اور پڑھنے بھی توجہ مرکوز کریں تاکہ ہم اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کامیاب ہوجائے۔ ورنہ مادری زبان چھن جانے سے ہماری شاخت بھی ختم ہوجائے گی۔