جموں: جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آج شیر کشمیر بھون جموں میں سنٹرل زون جموں کے ڈیلی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”چنڈی گڑھ میں گذشتہ دنوں میئر الیکشن کیساتھ جو کچھ ہوا وہ جمہوریت کے نام پر دبہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک زمانے میں جموں وکشمیر میں بھی کچھ ایسا ہوا کرتا تھا ، جب ایک افسر ایک مخصوص پارٹی کے اُمیدوار کو چھوڑ کر باقی تمام اُمیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی رد کیے گئے تھے، مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ ماضی کی بات ہے اور دورِ جدید میں ایسا ممکن نہیں، لیکن گزشتہ دنوں چندی گڑھ کے میئر انتخابات کے دوران ایک افسر نے بھاجپا کے اُمیدواروں کو جتانے کیلئے ووٹوں میں قلم زنی کرکے انہیں رد کر دیا اور ایک ایسے اُمیدوار کو میئر بنا ڈالا جو خود بھی اس کرسی پر بیٹھنے کیلئے شرمندہ تھا۔ان کے مطابق سپریم کورٹ نے اس معاملے پر سخت ترین نوٹس لیکر اس عمل کو جمہوریت کا قتل قرار دیا ۔ “
انہوں نے کہا کہ یہ وہی قاتل ہیں جو جموں وکشمیر میں مسلسل طور پر جمہوریت کا قتل کررہے ہیں، یہاں اسمبلی انتخابات کرانے میں اڑچنیں پیدا کررہے ہیں ، پہلے جب ان سے اسمبلی انتخابات کے بارے میں سوال پوچھا جاتا تھا تو یہ جواب دیتے تھے کہ ریاست میں پنچایتیں ہیں، سرپنچ ہیں، پنچ ہیں، کارپوریٹر ہیں، میئر ہیں، چیئرمین ہیں لیکن اب نہیں کوئی چیئرمین ہے، نہ کوئی پنچ ، نہ کوئی سرپنچ اور نہ ہی میئر ہے۔ اب حکمرانوں سے پنچایتی اور بلدیاتی الیکشن میں دیری کی وجہ پوچھتے ہیں تو وہ اس کیلئے حدبندی وجہ قرار دیتے ہیں۔ “
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ پنچایتیں اور بلدیاتی اداروں کی معیار 5سال میں مکمل ہونے والی تھی ، کیا ایک سال پہلے حدبندی کا عمل شروع نہیں کیا جاسکتا تھا؟ معیاد ختم ہونے کے بعد ہی حکومت کو حدبندی کیوں یاد آئی؟
عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ ہمیشہ کیلئے چھپ نہیں سکتے، ہمیشہ کیلئے یہ بھاگ نہیں پائیں گے، کبھی نہ بھی تو انہیں سپریم کورٹ کے حکم کا عمل کرنا ہوگا، اور تب جاکر ہم صحیح معنوںمیں نیشنل کانفرنس کی بنیادی طاقت پوری دنیا کو دکھا دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جو ان لوگوں کے آس پاس گھومنے والے لوگ ہیں وہ ان چیزوں کا ذکر نہیں کریں گے، کیونکہ وہ اپنی چاپلوسی میں مصروف ہیں، یہ لوگ ہر حکومت کے چاپلوس بنتے ہیں۔ ہماری حکومت کے دوران یہ ہمارے آگے پیچھے گھومتے تھے، پھر اگلی حکومت کے آگے پیچھے گھومنے لگے اور آج موجودہ حکمرانوں کے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں۔ شکر ہے کہ حکومت سے باہر رہ کر ہمیں ایسے لوگوں کی اصلیت پوری طرح معلوم پڑ گئی اور اب ان کیلئے ہمارے دروازے نہیں کھلیں گے۔
دربار مو کے نہ ہونے سے جموں کو ہورہے نقصان کو بدقسمتی سے تعبیر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ یہاں کے دکاندار پریشان، کاروباری مایوس ہیں، دربار سے جو رونق لگتی تھی وہ غائب ہوگئی ہے۔یہاں ایک سسٹم ہوتا تھا، سب کو معلوم ہوتا تھا کہ کون سے افسر اور ملازم 6 مہینے سرینگر میں ہونگے اور کون 6 مہینے جموں میں ہونگے، آج تو اپنی من مرضی سے کام چل رہاہے، جس افسر کی مرضی وہ جہاں بیٹھے۔
مزید پڑھیں:
ٹارگیٹ کلنگ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے بارے میں عمر نے کہا کہ بے حد افسوس ہوا کہ سرینگر میں دو غیر مقامی لوگ فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے کی جتنی بھی مزمت کی جائے وہ کم ہے۔ لگاتار سرینگر میں دو چار سالوں سے ٹارگیٹ کلنگ کے حملے پیش آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکز نے دفعہ 370 کی منسوخی کے وقت جو دعوے کیے تھے وہ سراب ہی نظر آئے۔
این ڈی او کو اب کی بار 400 سیٹیں جیتے کے بارے میں عمر نے کہا کہ 400 سیٹیں جیتے سے پہلے یہ بتائے کہ جموں و کشمیر میں حالات اس طرح خراب کیوں ہوئے۔ جموں و کشمیر میں جو امن کی بات ہوئی وہ کہاں ہے۔ انہوں نے سوالہ انداز میں کہا کہ یہ ہر بار کیہ رہے ہے کہ جموں و کشمیر میں ملیٹینسی اب آخری مرحلے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں حالات خراب ہونے پر اب یہ ہمیں قصواروار نہیں ٹھہرائے گئے ،کیونکہ جموں و کشمیر میں کئی سالوں سے مرکز کا راج رہا ہے۔
(یو این آئی مشمولات کے ساتھ )