جموں خطے میںہوئے چند عسکری حملوں پر ایک طائرانہ نظر
08.07.2024: جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے ماچیڈی علاقے میں عسکریت پسندوں کی جانب سے بھارتی فوج کے ایک دستے پر حملے میں پانچ فوجی اہلکار ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔
11.06.2024: بھدرواہ میں 5 فوجی اہلکار اور ایک پولیس اہلکار زخمی۔
04.05.2024: پونچھ میں بھارتی فضائیہ (آئی اے ایف) کے ایک دستے پر عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک فوجی ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔
12.01.2024: ضلع پونچھ میں مشتبہ عسکریت پسندوں نے سیکورٹی اہلکاروں کو لے جانے والی گاڑیوں (کے قافلے) پر فائرنگ کی، تاہم اس حملے میں کوئی حفاظتی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔
21.12.2023: سرحدی ضلع پونچھ میں دو فوجی گاڑیوں پر عسکری حملے میں کم از کم چار فوجی ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔20 دسمبر کی شام سے ڈیرا کی گلی نامی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کو تقویت دینے کے لیے جا رہے فوجیوں کے قافلے پر سہ پہر 3.45 بجے کے قریب گھات لگا کر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ راجوری اور پونچھ اضلاع کی سرحد سے متصل سورن کوٹ پولیس اسٹیشن کے دائرہ اختیار میں ڈیرا کی گلی اور بفلیاز کے درمیان میں ہوا۔
22.11.2023: راجوری ضلع کے کالاکوٹ کے جنگلاتی عالقے میں ایک تصادم کے بعد کارروائی میں دو افسران سمیت پانچ فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
12.09.2023: راجوری میں ایک تصادم کے دوران ایک فوجی اہلکار ہلاک اور تین دیگر زخمی ہو گئے۔
05.05.2023: راجوری کے جنگلاتی علاقہ کنڈی میں عسکری حملے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور ایک افسر زخمی ہوگیا۔
20.04.2023- پونچھ ضلع میں ایک عسکری حملے میں 5 فوجی اس وقت مارے گئے جب فوج کی گاڑی ضلع کے بھیمبر گلی سے سنگیوٹ کی طرف جا رہی تھی۔ فوج نے بتایا کہ تمام فوجیوں کا تعلق راشٹریہ رائفلز یونٹ سے تھا۔ جو علاقے میں عسکری مخالف کارروائیوں کے لیے تعینات تھے۔
11.08.2022: راجوری ضلع کے پرگل درہال میں ہوئے ایک مقابلے میں فوج کے پانچ اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ دو فدائین بھی مارے گئے۔
14.10.2021: پونچھ کے مینڈھر علاقے میں شام کے وقت ایک اور مقابلے میں جے سی او سمیت چار فوجی ہلاک ہو گئے۔
11.10.2021: راجوری کے سُرن کوٹ کے جنگل میں عسکری مخالف کارروائی کے دوران ایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر (جے سی او) سمیت فوج کے پانچ اہلکار شدید فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گئے۔
21 مارچ ، 2015: ضلع سانبہ میں جموں - پٹھان کوٹ قومی شاہراہ پر آرمی کیمپ میں فدائین حملے کے دوران دو عسکریت پسند مارے گئے۔ حملے کے دوران ایک شہری، ایک میجر اور ایک فوجی جوان سمیت تین افراد بھی زخمی ہوئے۔
20 مارچ ، 2015: فوج کی وردی میں ملبوس عسکریت پسندوں کے ایک فدائین اسکوارڈ نے کٹھوعہ ضلع کے ایک پولیس تھانے پر دھاوا بول دیا جس میں ایس ایف کے تین اہلکاروں، دو شہریوں اور دو عسکریت پسندوں سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے جبکہ اس واقعے میں سی آر پی ایف کے آٹھ اہلکاروں، تین پولیس اہلکاروں اور ایک شہری سمیت 12 افراد بھی زخمی ہوئے۔
27 نومبر 2014: جموں ضلع میں بین الاقوامی سرحد کے قریب ارنیا سیکٹر کے سرحدی گاؤں کتھار میں ایک انکاؤنٹر کے دوران چار شہریوں، تین فوجی جوانوں اور تین عسکریت پسندوں سمیت 10 افراد مارے گئے۔
14 مئی 2002: جموں کے کالوچک علاقے میں ایک فوجی چھاؤنی پر فدائین حملے میں 36 افراد ہلاک اور 48 زخمی ہو گئے۔
جموں خطے کو عسکریت پسندوں کی جانب سے ہدف بنائے جانے کی وجوہات
دفعہ 370 کا خاتمہ - عسکری کارروائیوں کی حکمت عملی میں تبدیلی
شیش پال وید، جموں و کشمیر کے سابق ڈی جی پی: ’’شروع میں، کشمیر ان کی توجہ کا مرکز تھا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد، زمینی سطح پر اہم تبدیلیاں آئیں اور انہوں نے بھیڑیوں کے مانند تنہا (اکیلے، علیحدہ) حملے شروع کر نے کا (نیا) طریقہ اختیار کیا۔ ‘‘
عسکریت پسندی کو 2019 کے فورا بعد ہی یہاں شفٹ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ خطہ (جموں) پہلے ہی جغرافیائی لحاظ سے، متنوع آبادی اور انٹیلی جنس نیٹ ورکس کی کمی کی وجہ سے مسلح افواج کے لیے ایک مشکل محاذ والا علاقہ بن گیا ہے۔
جموں میں تشدد کے واقعات میں اضافہ
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پاکستان میں مقیم عسکریت پسند گروپس کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی۔ ان گروپس نے وادی کشمیر، جہاں سیکورٹی فورسز کی مضبوط گرفت برقرار ہے، سے توجہ ہٹانے کے لئے جموں کو عسکری کارروائیوں (حملوں) کے لئے چنا۔ گزشتہ 2-3 برسوں سے جموں میں عسکریت پسندوں نے وقفے وقفے سے حملے کیے ہیں، جن سے صوبہ جموں میں تشدد کے واقعات میں (ماضی کے برعکس) اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خاص طور پر سال 2023 میں 43 عسکری کارروائیاں ہوئیں اور رواں برس یعنی 2024 میں اب تک 20 حملے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) آر آر سوین کے مطابق ’’لائن آف کنٹرول کے پار لانچ پیڈ پر تقریبا 60 سے 70 دہشت گرد سرگرم ہیں۔‘‘
جغرافیائی چیلنجز
وادی کشمیر کا بیشتر حصہ نسبتاً ہموار ہے اور اس کے برعکس جموں زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔ جموں کے راجوری اور پونچھ اضلاع، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سے قریب ہونے، گھنے جنگلات، پہاڑی سلسلے کی وجہ سے عسکریت پسندوں کے لیے خاص طور پر موزوں ہیں۔
سابق فوجی کمانڈر کا بیان
سابق فوجی کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل رانا پرتاپ کے مطابق خطہ پیر پنجال کے جنوب میں واقع علاقوں میں (پونچھ اور راجوری) ٹیرین اور آبادی، اس قسم کے واقعات کے لیے عسکریت پسندوں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں۔ حتی کہ زیادہ تر علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہے اور اس کی وجہ سے ہندو آبادی کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ کشمیر کے برعکس جموں خطے میں عسکری مخالف گرڈ میں کچھ خلاء (کمزوریاں) ہیں۔
جموں اور کٹھوعہ کے آئی بی (بین الاقوامی سرحدی) علاقوں سمیت پیر پنجال کے جنوب میں بھی دراندازی ممکن ہے۔ وہ بغیر ہتھیاروں کے عام شہریوں کی طرح سرحد بھی عبور کر سکتے ہیں اور پھر انہیں علاقے کے اندر ہتھیار فراہم کیے جاتے ہیں۔ جموں خطے میں آنے کے لیے متعدد راستے دستیاب ہیں۔ پیر پنجال کے جنوب میں جموں کے علاقے میں کئی گھنے جنگلات اور پہاڑی علاقے ہیں۔
عسکریت پسندوں کے ہتھیار اور ٹریننگ
ان عسکریت پسندوں کو جنگل اور پہاڑی علاقوں میں گوریلا وار کی تربیت دی جاتی ہے اور چین و امریکی ساختہ ہتھیاروں خاص کر اسٹیل کی گولیوں سے لیس ان عسکریت پسندوں کو جموں میں بھیج دیا گیا ہے۔ یہ عسکریت پسند فوج پر گھات لگا کر ور چھپ کر وار کرتے ہیں۔ ان کی اہم حکمت عملیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ پیر پنجال رینج میں ایسے مواصلاتی طریقوں کا استعمال کرتے ہے جن کا سراغ لگانا مشکل ہے۔
انٹیلی جنس نیٹ ورک کی کمی
ریٹائرڈ جنرل دیپیندر سنگھ ہوڑا کا ماننا ہے کہ ’’کشمیر کے برعکس، جموں میں انسانی انٹیلی جنس نیٹ ورک اتنا مضبوط نہیں ہے۔‘‘
بھارت سمیت دنیا کو پیغام پہنچانے کی کوشش
وزیراعظم نریندر مودی نے 3 جولائی 2024 کو پارلیمنٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے خلاف جنگ اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایوان کو بتایا: ’’ہم وہاں باقی دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے ایک کثیر جہتی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ‘‘
لیفٹیننٹ جنرل حسنین (ریٹائرڈ) سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ 15 کور (سرینگر) کے مطابق ’’وہ دنیا کو ایک اسٹریٹجک پیغام دینا چاہتے ہیں، کہ ہندوستان اگرچہ اپنی (دیگر) تمام کامیابیوں کے بارے میں کھلے عام اور فخریہ طور بات کرتا ہے، تاہم اس کا جموں کشمیر پر قابو نہیں ہے۔‘‘
ماخذ: میڈیا رپورٹس
یہ بھی پڑھیں: ڈوڈہ اور کٹھوعہ میں عسکریت پسندوں کا پتہ لگانے کے لیے سرچ آپریشن دوبارہ شروع - Doda Encounter day 2