سرینگر (جموں کشمیر) : شمالی کشمیر کے کپوارہ ضلع میں پیر کی شام ایک المناک کار حادثے میں غلام رسول بٹ، ان کا فرزند اور دو بیٹیوں کی موت واقع ہو گئی۔ ایک ہی کنبے کے یہ چار افراد ایک مقامی نالہ سے پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلے تاہم ان کی گاڑی حادثہ کا شکار ہو گئی جس میں ان چاروں افراد کی موت واقع ہو گئی۔ اس حادثہ پر علاقے میں غم و غصہ کا اظہار احتجاج کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
55 سالہ غلام رسول، ہندوارہ تحصیل کے راجپورہ گاؤں کے رہائشی تھے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ رات کے کھانے کے لئے پانی لینے گئے تھے۔ جموں و کشمیر جل شکتی ڈپارٹمنٹ کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود، کہ انہوں نے 60 فیصد دیہی گھروں کو نل کے ذریعے پانی فراہم کیا ہے، راجپورہ علاقہ، جہاں 3000 سے زائد نفوس آباد ہیں، میں پینے کے پانی کی معقول فراہمی نہیں ہے۔
پولیس بیان کے مطابق، پانی جمع کرنے کے فوراً بعد ہی اس کنبے کی - ایک لوڈ کیریئر - گاڑی سڑک سے پھسل کر کھائی میں جا گری جس کے نتیجے میں 55سالہ غلام رسول بٹ، ان کا فرزند 22سالہ طاہر احمد بٹ، 19سالہ شبنم آرا اور 17سالہ رفعت آرا موقع پر ہی فوت ہو گئے۔
راجپورہ گاؤں کے رہائشیوں کو پانی حاصل کرنے کے لئے ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ جنازے میں شریک پانی کی معقول سپلائی سے محروم راجپورہ کے رہائشیوں نے فوت ہوئے ان افراد کی تجہیز و تدفین کے دوران شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایل جی و ضلع انتظامیہ کے علاوہ جل شکتی محکمہ کے خلاف بھی نعرے بازی کی۔ لوگوں نے ’’جل جیون مشن‘‘ کے تحت ایل جی انتظامیہ کے ’’ہر گھر کو پینے کا پانی فراہم کرنے‘‘ کے دعووں کی شدید نکتہ چینی کی۔ علاوہ ازیں انہون نے مقامی سیاستدانوں - بشمول چودھری رمضان اور سجاد لون - کو بھی گاؤں کی پانی کی ضروریات کو پورا نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
چودھری رمضان، جو پانچ مرتبہ ہندورہ علاقے سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہے، کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی مدت کے دوران راجپورہ کے لئے ایک بور ویل اور پانی کے ذخیرے کے لئے فنڈز مختص کیے تھے، لیکن دونوں منصوبے ناکام ہو گئے۔ سجاد لون نے سوشل میڈیا پر تعزیت کا اظہار کیا لیکن پانی کی فراہمی کے مسئلے کو حل نہیں کیا۔ جل شکتی محکمہ کے افسران کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔
سجاد لون نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر لکھا: ’’یہ سب سے تکلیف دہ خبر ہے جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر غلام رسول کو جانتا تھا۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے۔ اللہ ان کی روح کو سکون دے۔‘‘ سید امتیاز نامی ایک مقامی شخص نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا: ’’بور ویل اور ریزروائر لفٹ اسکیم کو لون یا رمضان نے ان کی داخلی سیاست کی وجہ سے مکمل نہیں کیا۔‘‘
فوت ہوئے افراد کی نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی اور انہوں نے احتجاج بھی کیا اور سیاستدانوں سمیت حکام کو بھی پانی کے بحران پر اپنا موقف ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا۔ مقامی خواتین نے پانی لانے کے لئے اپنی روزانہ کی جد وجہد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ٹینکر خدمات کی عدم دستیابی اور پانی فراہم کرنے کے حق میں احتجاج نہ کیے جانے پر انتظامیہ کے دباؤ کی تنقید کی۔
یہ حادثہ پیر کی شام پیش آیا اور صبح کے وقت، جب متوفین کی جسد خاکی کو آخری رسومات کے لئے لے جایا جا رہا تھا، راجپورہ علاقے کے رہائشیوں نے انتظامیہ اور جل شکتی ڈپارٹمنٹ کے خلاف نعرے بازی کی۔ سوگوار خواتین نے کہا کہ وہ گزشتہ ایک دہائی سے پانی کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ مقامی خواتین نے کہا: ’’ہم روزانہ مٹکوں، بالٹیں میں ندی سے پانی لاتے ہیں کیونکہ یہی ایک واحد ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے اور اہل و عیال کی پیاس بجھاتے ہیں۔ ہمیں ٹینکر سے پانی فراہم نہیں ہوتا۔ اگر ہم آواز اٹھائیں یا احتجاج کریں، تو انتظامیہ ہمیں روک دیتی ہے۔‘‘
مشن ڈائریکٹر، جے جے ایم جے اینڈ کے، ڈاکٹر جی این ایتو، نے کہا تھا کہ محکمہ 2024 کے اوائل تک تمام دیہی علاقے میں ہر گھر کو نل کے ذریعے پانی فراہم کرنے کے راستے پر گامز ہیں۔ تاہم، جب حادثے کے بارے میں ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنا پلو جھاڑتے ہوئے ساری ذمہ داری جل شکتی ڈپارٹمنٹ پر ڈال دی اور فون کال یہ عذر پیش کرکے اچانک ختم کر دی کہ وہ ایک ویڈیو کانفرنس میٹنگ میں ہیں۔
انہوں نے گزشتہ سال کہا تھا: ’’محکمہ 18.67 لاکھ گھروں میں سے11.23 لاکھ دیہی گھروں کو صاف نل کا پانی فراہم کر رہا ہے۔ ہر گھر میں 2023 کے آخر تک یا 2024 کے اوائل میں نل کا پانی فراہم کیا جائے گا۔‘‘ 15 اگست، 2019 کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے شروع کیے گئے جل جیون مشن (جے جے ایم) میں 100 فیصد فنکشنل ہاؤس ہولڈ ٹیپ کنکشن (ایف ایچ ٹی سی) فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تاکہ ہر دیہی گھر تک نل کا پانی پہنچانے کے لئے دیہات میں پائپ شدہ پانی کی فراہمی کا انفراسٹرکچر تیار کیا جا سکے۔ تاہم، یونین ٹیریٹری میں اس اسکیم پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سینئر آئی اے ایس افسر اشوک کمار پرمار، جو گزشتہ ماہ ریٹائر ہوئے، نے سابق چیف سیکریٹری ارون کمار مہتا اور جل شکتی ڈپارٹمنٹ پر بے ضابطگیوں، دھوکہ دہی اور 3000 کروڑ روپے کی بدانتظامی کا الزام عائد کیا تھا۔ گھوٹالے میں جے جے ایم کے نفاذ سے متعلق اعداد و شمار میں کذب بیانی کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔ پرمار نے ان دعووں کو وزارت داخلہ، اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی)، اور سنٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) کو مزید تحقیقات کے لئے رپورٹ کیا تھا۔ مالیاتی کمشنر، جل شکتی ڈپارٹمنٹ، شالین کابرا نے ایک پریس کانفرنس میں پرمار کے دعوؤں کو یہ دعوی کرتے ہوئے غلط قرار دیا تھا کہ ’’جے جے ایم کے نفاذ پر اگست 2023 تک صرف 800 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔‘‘
امتیاز نامی مقامی شہری نے بتایا کہ ’’آج کے المنام حادثے کے بعد اب انتظامیہ نے چشمے کے پانی کو گاؤں سے جوڑنے کے لئے پائپیں بچھائی ہیں۔‘‘ تاہم، انتظامیہ کی کوششیں بہت دیر سے آئیں اور پانی کی تلاش میں فوت ہوئے ایک ہی کنبے کے چار افراد واپس نہیں آ سکتے، اور اس حادثے نے غلام رسول بٹ کی بیوہ اور دو یتیم بچوں کو عمر بھر کے درد و کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔
آبی ذخائر خاص کر ندی نالوں، چشموں اور آبشاروں سے مالا مال وادی کشمیر میں پانی حاصل کرنے کے دوران ہوا یہ حادثہ، لوگوں کو پانی جیسی بنیادی ضرورت کی فراہمی میں حکام کی ناکامی کو بیاں کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Thirst Ends In Tragedy: Out To Fetch Water, Four Of Family Die In Kashmir Accident