گاندربل: گاندربل ضلع پانی کے وسائل سے مالا مال ہے تاہم ان دنوں شدید گرمی کے چلتے گاندربل ضلع میں بھی پینے کے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہاہا کار مچا ہے کل ہی ضلع انتظامیہ گاندربل کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ جس میں پانی کے منصفانہ استعمال پر زور دیا گیا۔ نیز ضرورت پڑنے پر ہیلپ لائن نمبرات بھی جاری کئے گئے۔
آخرکار ضلع میں پانی کے ذخائر موجود ہونے کے باوجود پانی کی قلت کیوں ہے؟ اگر چہ مرکزی اور جموں کشمیر انتظامیہ لوگوں تک صاف پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیئے بجٹ میں الگ سے جل شکتی کے لئے رقومات واگزار کرتے ہیں اور ضلع گاندربل میں بھی ان رقومات سے واٹر فلٹریشن اور سپلائی پلانٹ تعمیر کئے جاتے ہیں۔ تاہم محکمہ کی طرف سے ناقص پلاننگ کی وجہ سے یہ پلانٹ تعمیر ہونے کے باوجود بھی لوگوں کے لئے کوئی آسانی پیدا نہیں کر پاتے ہیں۔
لری پرینگ پروجیکٹ: محکمہ جل شکتی گاندربل نے سال 2010/11 میں 15 سے 20 کروڑ کا ایک ڈی پی آر تیار کیا اور اس پروجیکٹ کے تحت اس جگہ تقریبا 30 کنال اراضی پر ایک ریزروائر تعمیر کرنا تھا جس میں وانگت کنال سے پانی لاکر اس ڈیم میں ذخیرہ کر کے منیگام سے مانسبل تک تعمیر واٹر سپلائی سکیموں تک پانی پہنچا تھا اور ڈیم کا استعمال خشک سالی جو کہ ان دنوں پڑ رہی ہے پانی کی ضروریات کو پورا کرتا۔
اگرچہ اس ڈیم پر لاکھوں روپئے خرچ کر کے تعمیراتی کام شروع کیا گیا تاہم کچھ ہی دنوں اس پر تعمیراتی کام بند کر دیا گیا اور صرف لار کنال سے پائپوں کو جوڑا گیا اور ان ہی پائیوں سے اس وقت را واٹر ان سکیموں کو سپلائی کیا جارہا ہے۔ تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چہ ان سکیموں تک پانی پہنچایا جا سکتا تھا تو ڈیم تعمیر کرنے کے لئے زمین کیوں خریدی گئی اور اس پر تعمیراتی کیوں کیا گیا۔
اس حوالے سے محکمہ کا موقف ظاہر کرتے ہوئے محکمہ جل شکتی ڈیویژن گاندربل کے ایگزیکیٹیو انجینیئر سمیع اللہ بیگ نے کہا کہ سرکار نے اس پروجیکٹ پر مزید رقومات واگزار کرنے سے انکار کیا تاہم اس سکیم کے لئے پائنپں بچھا دی گئیں ہیں جس سے پچھلے چار ماہ سے پانی سپلائی ہو رہا ہے۔