پلوامہ: ضلع پلوامہ میں جہاں مختلف اقسام کے میوے جات اگائے جاتے ہیں, کئی علاقوں میں سرسوں کی کھیتی کی جاتی ہے وہیں اس ضلعے میں دھان کی بھی کاشت کی جاتی ہے جس سے یہاں کے کسان روزگار حاصل کرتے ہیں جس سے ان کی سال بھر کی آمدنی ہوتی ہے کیونکہ ان کی آمدنی اور بچت کا یہ واحد زریعہ ہے۔
ضلع پلوامہ کا رکھ پاہو، کاوسی باغ، باڈی باغ اور دیگر کئی علاقے ہیں جہاں پر صرف دھان کی کھیتی کی جاتی ہے تاہم ان علاقوں میں کھیتی کے لئے آبپاشی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کسان کافی مایوس نظر آرہی ہیں۔ اس وقت ان علاقوں میں دھان کی پنیری لگانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے تاہم آبپاشی کی پریشانی کے باعث اکثر زرعی زمین بنجر ہونے لگی ہیں۔
ان علاقوں میں رہنے والے لوگ پانی جمع کرکے یا تو بالٹی یا پانی والے موٹروں کا استعمال کرکے کھیتوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے مگر یہ عمل کارساز نہیں ہے۔ دھان کی کھیتی کے لئے کسانوں کو سنچائی کے لئے کافی پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ یہاں پر کسان آج بھی کھیتوں کو بالٹی اور موٹروں کے ذریعہ ہی سیراب کرتے ہوئے نظر آئے۔
اس سلسلے میں مشتاق احمد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کی آمدنی کا دارومدار دھان کی کاشت پر ہے اور آبپاشی کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے زرعی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔
اس موقع پر عقیل احمد نے کہا کھیتوں کو سیراب کرنے کے لئے پہلے پانی کو جمع کرنا پڑتا ہے پھر بالٹی یا واٹر پمپ کا استعمال کرکے کھیتوں کی سنچائی کرنا پڑتی ہے۔
اس حوالے سے عارف احمد نے کہا کہ ان کے کھیتوں کو قریبی چشمے سے پانی سپلائی ہوتا تھا لیکن محمکہ جل شکتی نے اس چشمے کے پانی کو بند کردیا اور اس کا پانی پینے کے لئے کئی علاقوں کو سپلائی کیا گیا جس کی وجہ سے کئی ہزار کنال اراضی متاثر ہوئی۔
مقامی لوگوں نے ڈپٹی کمشنر پلوامہ ڈاکٹر بشارت قیوم سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں اور ان علاقوں کو آبپاشی کی مناسب سہولتیں فراہم کریں کیونکہ زیادہ تر لوگ کھیتی پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: