ETV Bharat / jammu-and-kashmir

ہمالیہ کے بالائی علاقوں کے اسکولوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا - Nomadic life of Himalayan Students

گرمیاں شروع ہوتے ہی گجر اور بکروال موسمی ہجرت کرکے وادی کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ ان کا مقصد پہاڑی علاقعے کے سرسبز میدانوں میں اپنی بھیڑ بکریوں اورمویشیوں کو چروانا ہوتا ہے۔ مگر انکی اس نقل و حرکت کی وجہ سے ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ اور ان کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ ان بچوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انکوتعلیم سے متعلق سہولیات فراہم کی جائیں۔

ہمالیہ کے اسکولوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا
ہمالیہ کے اسکولوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 15, 2024, 4:48 PM IST

بانڈی پورہ: گرمیاں شروع ہوتے ہی ہر سال مئ کے مہینے سے ہی گجر اور بکروال موسمی ہجرت کرکے وادی کشمیر کا رخ کرنا شروع کرتے ہیں۔ ان کا مقصد ہمالیائ پہاڑی سلسلے کے وسیع سرسبز میدانوں میں اپنے بھیڑ بکریوں اورمویشیوں کو چروانا ہوتا ہے۔

ہمالیہ کے اسکولوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا (ETV Bharat)

اس مقصد میں وہ بہت حد تک کامیاب تو ہوتے ہیں لیکن اس سفر کے دوران ان کےساتھ چلنے والے ان کے بچوں کی تعلیم پر کیا اثر پڑتا ہے ۔اس طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ان بچوں کی تعلیم کے لئے اساتذہ کی سہولیات فراہم کی ہیں لیکن یہ ان کے لیے ناکافی ہیں۔

طلباء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں سہولیات فراہم کی جائیں۔ راجوری سے آئے ہوئے ایک طالب علم اورنگزیب نے انہی مسائل کی طرف توجہ دلاتے پوئے کہا "ہمیں امید ہے کہ حکومت ہمارے بارے میں بھی سوچے گی اور ہمیں بورڈ، واٹر پروف خیمے جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرے گی تاکہ ہم مزید تکلیف کے بغیر اپنی تعلیم حاصل کرسکیں۔"ہمالیہ کے ان اونچے پہاڈوں پر اکثر تیز اور بے وقت بارش ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر ان کے کمزور اور ہاتھوں سے بنائے گئے خیمے اکھڑ جاتے ہیں جنہیں دوبارہ سے کھڑا کرنا نا ممکن ہوتا ہے۔

خیموں میں عارضی اسکولوں کو چلاتے ہوئے، ان اساتذہ کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھنے والے شدید خطرات کا سامنا رہتا ہے جس میں بار بار بادلوں کا پھٹنا، شدید بارش اور ہمالیہ میں جانوروں کے حملوں میں اضافے جیسے کئی اسباب شامل ہیں۔

اس طرح کے حالات سے اکثر طلباء کے سامان کو نقصان پہنچاتا ہے، جیسے کہ بکروال برادری سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کی کتابیں اور اسکول کے بیگ وغیرہ برباد ہوجاتے ہیں۔



گوجر اور بکروال جموں و کشمیر خطے کی آبادی کا تقریباً 12 فیصد حصہ ہیں۔ وہ مل کر یونین ٹیریٹری میں تیسری سب سے بڑی نسلی برادری بھی ہیں، تاہم، تعلیم ان کے لیے ایک دور کا خواب تھا جب تک کہ جموں و کشمیر حکومت نے 2003 میں سماگرا شکشا ابھیان کے تحت موسمی تعلیمی مراکز قائم نہیں کیے تھے۔


"ہم موسمی ہجرت کے دوران ان طلباء کے ساتھ 24/7 رہتے ہیں، اس کے باوجود حکومت ہمیں ایک مزدور سے بھی کم اجرت فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد ہم باقی مہینوں تک بے روزگار رہتے ہیں، ان کے پاس ہمارے لیے کوئی ریگولرائزیشن پالیسی بھی نہیں ہے راجوری سے تعلق رکھنے والے ایک استاد نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہ بات کہی۔انہوں نے کہا، "ہمیں امید ہے کہ حکومت ہمارے بارے میں سوچے گی اور ہمارے لیے ریگولرائزیشن پالیسیاں بنائے گی۔"


دریں اثناء چیف ایجوکیشن آفیسر بانڈی پورہ جی ایم پوجو نے کہا کہ حکومت ان پسماندہ طبقوں کے طلباء کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے جو گرمیوں کے مہینوں میں بالائی علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں محکمہ تعلیم کی جانب سے بھی ایک جائزہ لیا گیا تھا اور طلباء کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر وہ خوش ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اس سال 581 طلباء کے لیے 51 رضاکار اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ان موبائل اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں:

بانڈی پورہ: گرمیاں شروع ہوتے ہی ہر سال مئ کے مہینے سے ہی گجر اور بکروال موسمی ہجرت کرکے وادی کشمیر کا رخ کرنا شروع کرتے ہیں۔ ان کا مقصد ہمالیائ پہاڑی سلسلے کے وسیع سرسبز میدانوں میں اپنے بھیڑ بکریوں اورمویشیوں کو چروانا ہوتا ہے۔

ہمالیہ کے اسکولوں کو بہت سے چیلنجز کا سامنا (ETV Bharat)

اس مقصد میں وہ بہت حد تک کامیاب تو ہوتے ہیں لیکن اس سفر کے دوران ان کےساتھ چلنے والے ان کے بچوں کی تعلیم پر کیا اثر پڑتا ہے ۔اس طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ان بچوں کی تعلیم کے لئے اساتذہ کی سہولیات فراہم کی ہیں لیکن یہ ان کے لیے ناکافی ہیں۔

طلباء نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں سہولیات فراہم کی جائیں۔ راجوری سے آئے ہوئے ایک طالب علم اورنگزیب نے انہی مسائل کی طرف توجہ دلاتے پوئے کہا "ہمیں امید ہے کہ حکومت ہمارے بارے میں بھی سوچے گی اور ہمیں بورڈ، واٹر پروف خیمے جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرے گی تاکہ ہم مزید تکلیف کے بغیر اپنی تعلیم حاصل کرسکیں۔"ہمالیہ کے ان اونچے پہاڈوں پر اکثر تیز اور بے وقت بارش ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر ان کے کمزور اور ہاتھوں سے بنائے گئے خیمے اکھڑ جاتے ہیں جنہیں دوبارہ سے کھڑا کرنا نا ممکن ہوتا ہے۔

خیموں میں عارضی اسکولوں کو چلاتے ہوئے، ان اساتذہ کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑھنے والے شدید خطرات کا سامنا رہتا ہے جس میں بار بار بادلوں کا پھٹنا، شدید بارش اور ہمالیہ میں جانوروں کے حملوں میں اضافے جیسے کئی اسباب شامل ہیں۔

اس طرح کے حالات سے اکثر طلباء کے سامان کو نقصان پہنچاتا ہے، جیسے کہ بکروال برادری سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کی کتابیں اور اسکول کے بیگ وغیرہ برباد ہوجاتے ہیں۔



گوجر اور بکروال جموں و کشمیر خطے کی آبادی کا تقریباً 12 فیصد حصہ ہیں۔ وہ مل کر یونین ٹیریٹری میں تیسری سب سے بڑی نسلی برادری بھی ہیں، تاہم، تعلیم ان کے لیے ایک دور کا خواب تھا جب تک کہ جموں و کشمیر حکومت نے 2003 میں سماگرا شکشا ابھیان کے تحت موسمی تعلیمی مراکز قائم نہیں کیے تھے۔


"ہم موسمی ہجرت کے دوران ان طلباء کے ساتھ 24/7 رہتے ہیں، اس کے باوجود حکومت ہمیں ایک مزدور سے بھی کم اجرت فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد ہم باقی مہینوں تک بے روزگار رہتے ہیں، ان کے پاس ہمارے لیے کوئی ریگولرائزیشن پالیسی بھی نہیں ہے راجوری سے تعلق رکھنے والے ایک استاد نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے یہ بات کہی۔انہوں نے کہا، "ہمیں امید ہے کہ حکومت ہمارے بارے میں سوچے گی اور ہمارے لیے ریگولرائزیشن پالیسیاں بنائے گی۔"


دریں اثناء چیف ایجوکیشن آفیسر بانڈی پورہ جی ایم پوجو نے کہا کہ حکومت ان پسماندہ طبقوں کے طلباء کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے جو گرمیوں کے مہینوں میں بالائی علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں محکمہ تعلیم کی جانب سے بھی ایک جائزہ لیا گیا تھا اور طلباء کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر وہ خوش ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اس سال 581 طلباء کے لیے 51 رضاکار اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ان موبائل اسکولوں میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.