پلوامہ (جموں کشمیر) : جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع میں رہائش پذیر مسلم آبادی نے کشمیر کے روایتی بھائی چارے اور مذہبی رواداری کی مثال ایک بار پھر زندہ کر دی جب مقامی مسلم آبادی نے اپنے ہندو پنڈت بھائی کی آخری رسومات انجام دی۔ ضلع پلوامہ کے ہال علاقے میں پنڈت اومکار ناتھ بٹ نامی ایک کشمیری ہندو پنڈت کی موت گرچہ جموں میں واقع ہوئی تاہم ان کی وصیت کے مطابق ان کی آخری رسومات ان کے آبائی علاقہ ہال، پلوامہ میں انجام دی گئی۔
اومکار ناتھ کی موت کی خبر ہال، پلوامہ پہنچتے ہی علاقے کی مسلم آبادی، بشمول مردو زن پنڈت کے آبائی گھر پہنچے آخری رسومات کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔ اومکار کے ایک قریبی رشتہ دار پنڈت اشوک پرمو نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’کشمیر میں آج بھی وہ بھائی چارہ زندہ ہے جو صدیوں پہلے یہاں ہوا کرتا تھا۔‘‘ انہوں نے یہاں کی مذہبی رواداری کی ستائش کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے بھارت کے کونے کونے کا سفر کیا ہے تاہم کشمیر جیسی مذہبی رواداری اور انسانیت کی مثال پورے عالم میں نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے ہال علاقے کی اکثر پنڈت آبادی وادی کشمیر چھوڑ کر چلی گئی تاہم اومکار ناتھ بٹ نے وادی کشمیر میں ہی رہائش پذیر اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے کہا: ’’یہاں کے مسلمانوں نے ہر ایک قدم پر کشمیری پنڈتوں کی مدد کی ہے جس کے لئے ہم ان کا بہت ہی شکرگزار ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’جموں سے یہاں پہنچ کر ہم حیران رہ گئے جب مسلم آبادی نے آخری رسومات کی ساری تیاری کر لی تھی، یقیناً ہم مسلمانوں کے بغیر ادھورے ہیں۔‘‘
حاجی محمد امین نامی ایک معمر شہری نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہال علاقے میں تقریباً پنڈتوں کے 70 گھر آباد تھے تاہم نامساعد حالات کی وجہ سے سبھی اپنے گاؤں چھوڑ کر چلے گئے تاہم اومکار ناتھ بٹ نے کبھی وادی کو نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اپنے ہندو مسلم بھائی چارے کو آج بھی جب یاد کرتے تو ہمارے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ سنہ 1990 کے اوائل میں کشمیر میں نامساعد حالات کے باعث اقلیتی طبقہ سے وابستہ کشمیری پنڈتوں کے سینکڑوں کنبوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر وادی کو الوداع کہہ دیا تھا اور جموں سمیت ملک کے دیگر حصوں میں رہائش اختیار کی، تاہم درجنوں کنبے کشمیر میں مقیم رہے جو آج بھی یہاں کے مختلف اضلاع میں آبادی ہیں۔ ریاست میں آج بھی ہندو مسلم بھائی چارہ قائم و دائم ہے۔ جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک رہتے ہیں اور یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیری پنڈت کی آخری رسومات مقامی مسلمانوں نے انجام دیا