ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کشمیری الاصل مصنفہ نتاشا کول بنگلورو سے لندن ڈیپورٹ - نتاشا کول

پروفیسر کول حکومت کرناٹک کی طرف سے جمہوریت اور آئینی اقدار پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے مدعو کی گئی تھیں، لیکن امیگریشن حکام نے انہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ انہیں 24 گھنٹے تک ایک سیل میں رکھنے کے بعد لندن جانے والے ایک طیارے میں سوار کرکے واپس روانہ کیا گیا۔

کشمیری الاصل مصنفہ نتاشا کول بنگلورو سے لندن ڈیپورٹ
کشمیری الاصل مصنفہ نتاشا کول بنگلورو سے لندن ڈیپورٹ
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 26, 2024, 12:42 PM IST

بنگلورو: کشمیری نژاد برطانوی مصنفہ اور عالمی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر نتاشا کول کو کرناٹک حکومت کی جانب سے منعقد کی جانے والی کانفرنس میں شرکت سے روکا گیا اور انہیں بھارتی سرزمین میں داخل ہونے سے قبل ہی ہوائی جہاز کے ذریعے واپس لندن بھیج دیا گیا۔ اس کارروائی کی سرکاری طور پر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم باور کیا جاتا ہے کہ حکومت ہند نے پروفیسر کول کو کشمیر سے متعلق ان کے نظریات کے پس منظر میں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔

ذرائع کے مطابق پروفیسر نتاشا کول اتوار کو بنگلورو میں بذریعہ طیارہ لندن سے وارد ہوئیں لیکن امیگریشن حکام نے انہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور ایک علیٰحدہ فلائٹ سے انہیں واپس لندن روانہ کیا گیا۔ نتاشا کول لندن کی ایک یونیورسٹی میں مدرسہ ہیں۔ ان کے پاس اگرچہ برطانوی شہریت ہے لیکن انہیں سمندر پار بھارتی شہری (اوورسیز سٹیزن آف انڈیا) کا کارڈ بھی ہے جو غیر ممالک میں رہنے والے بھارتیوں کو دوہری شہریت فراہم کرتا ہے۔

نتاشا نے بھارت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ انہیں جمہوری اور آئینی حقوق پر بات کرنے کیلئے بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے تمام دستاویز بشمول برطانوی پاسپورٹ اور او سی آئی صحیح ہیں۔ ’’امیگریشن والوں نے مجھے کوئی وجہ نہیں بتائی سوائے اس کے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، یہ حکم دلی سے آیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کے سفر کے تمام انتظامات کرناٹک (حکومت) نے کیے تھے اور ’’میرے پاس سرکاری خط - دعوت نامہ - بھی تھا۔ مجھے دلی حکومت کی جانب سے پیشگی کوئی اطلاع نہیں دی گئی کہ مجھے بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ نتاشا کول کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر سرکاری طور کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے۔ سینئر حکام کا کہنا ہے کہ انہیں فارنرز ریجنل رجسٹریشن دفتر سے اطلاع دی گئی کہ نتاشا کو ڈیپورٹ کرنے کا معاملہ، بنگلور میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔

نتاشا کول نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ 12 کھنٹے کی طویل فلائٹ کے بعد انہیں ایک ہولڈنگ سیل میں 24 گھنٹے تک غذا اور پانی تک محدود رسائی کے ساتھ بند رکھا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ نتاشا کول کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے بغیر ہی ائرپورٹ میں طویل وقت کیلئے بند رکھا گیا جس کے بعد انہیں لندن جانے والی ایک پرواز میں واپس بھیج دیا گیا۔

مزید پڑھیں:Invited By Karnataka Govt, Writer Nitasha Kaul Says Centre 'Denied Entry To India’

واضح رہے کہ نتاشا کول جموں و کشمیر میں حکومت ہند کی پالیسیوں کی بین الاقوامی سطح پر نکتہ چیں رہی ہیں۔ وہ جموں و کشمیر کیلئے مقبوضہ کا لفظ استعمال کرتی ہیں اور انکا موقف ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں پر انکی مرضی کے خلاف حکمران مسلط کئے گئے ہیں۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے حکومت ہند کے فیصلے کے خلاف انہوں نے بین الاقوامی میڈیا اور اکیڈمک اداروں میں آواز بلند کی تھی۔انہوں نے 22 اکتوبر 2019 کو اقوام متحدہ کی ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امورات میں ایک اہم عینی شاہد کی حیثیت سے اپنا بیان قلمبند کروایا جس میں انہوں نے جموں و کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ کیا۔

نتاشا کول اصل میں کشمیری ہندو خاندان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن انکی پیدائش اور پرورش و تعلیم کشمیر سے باہر ہوئی ہے۔ وہ لندن کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ نتاشا 2019 سے پہلے کئی بار کشمیر کا دورہ کر چکی ہیں اور اس موضوع پر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ انہیں اس وقت کافی تشہیر ملی تھی جب الجزیرہ کے پروگرام میں انہوں نے بھاجپا کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری رام مادھو کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

بنگلورو: کشمیری نژاد برطانوی مصنفہ اور عالمی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر نتاشا کول کو کرناٹک حکومت کی جانب سے منعقد کی جانے والی کانفرنس میں شرکت سے روکا گیا اور انہیں بھارتی سرزمین میں داخل ہونے سے قبل ہی ہوائی جہاز کے ذریعے واپس لندن بھیج دیا گیا۔ اس کارروائی کی سرکاری طور پر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم باور کیا جاتا ہے کہ حکومت ہند نے پروفیسر کول کو کشمیر سے متعلق ان کے نظریات کے پس منظر میں ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے۔

ذرائع کے مطابق پروفیسر نتاشا کول اتوار کو بنگلورو میں بذریعہ طیارہ لندن سے وارد ہوئیں لیکن امیگریشن حکام نے انہیں شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی اور ایک علیٰحدہ فلائٹ سے انہیں واپس لندن روانہ کیا گیا۔ نتاشا کول لندن کی ایک یونیورسٹی میں مدرسہ ہیں۔ ان کے پاس اگرچہ برطانوی شہریت ہے لیکن انہیں سمندر پار بھارتی شہری (اوورسیز سٹیزن آف انڈیا) کا کارڈ بھی ہے جو غیر ممالک میں رہنے والے بھارتیوں کو دوہری شہریت فراہم کرتا ہے۔

نتاشا نے بھارت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ انہیں جمہوری اور آئینی حقوق پر بات کرنے کیلئے بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے لکھا کہ ان کے تمام دستاویز بشمول برطانوی پاسپورٹ اور او سی آئی صحیح ہیں۔ ’’امیگریشن والوں نے مجھے کوئی وجہ نہیں بتائی سوائے اس کے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، یہ حکم دلی سے آیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کے سفر کے تمام انتظامات کرناٹک (حکومت) نے کیے تھے اور ’’میرے پاس سرکاری خط - دعوت نامہ - بھی تھا۔ مجھے دلی حکومت کی جانب سے پیشگی کوئی اطلاع نہیں دی گئی کہ مجھے بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ نتاشا کول کو بھارت میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر سرکاری طور کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے۔ سینئر حکام کا کہنا ہے کہ انہیں فارنرز ریجنل رجسٹریشن دفتر سے اطلاع دی گئی کہ نتاشا کو ڈیپورٹ کرنے کا معاملہ، بنگلور میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے ساتھ منسلک نہیں ہے۔

نتاشا کول نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ 12 کھنٹے کی طویل فلائٹ کے بعد انہیں ایک ہولڈنگ سیل میں 24 گھنٹے تک غذا اور پانی تک محدود رسائی کے ساتھ بند رکھا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ نتاشا کول کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے بغیر ہی ائرپورٹ میں طویل وقت کیلئے بند رکھا گیا جس کے بعد انہیں لندن جانے والی ایک پرواز میں واپس بھیج دیا گیا۔

مزید پڑھیں:Invited By Karnataka Govt, Writer Nitasha Kaul Says Centre 'Denied Entry To India’

واضح رہے کہ نتاشا کول جموں و کشمیر میں حکومت ہند کی پالیسیوں کی بین الاقوامی سطح پر نکتہ چیں رہی ہیں۔ وہ جموں و کشمیر کیلئے مقبوضہ کا لفظ استعمال کرتی ہیں اور انکا موقف ہے کہ جموں و کشمیر کے لوگوں پر انکی مرضی کے خلاف حکمران مسلط کئے گئے ہیں۔ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے حکومت ہند کے فیصلے کے خلاف انہوں نے بین الاقوامی میڈیا اور اکیڈمک اداروں میں آواز بلند کی تھی۔انہوں نے 22 اکتوبر 2019 کو اقوام متحدہ کی ہاؤس کمیٹی برائے خارجہ امورات میں ایک اہم عینی شاہد کی حیثیت سے اپنا بیان قلمبند کروایا جس میں انہوں نے جموں و کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی پامالیوں کا تذکرہ کیا۔

نتاشا کول اصل میں کشمیری ہندو خاندان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن انکی پیدائش اور پرورش و تعلیم کشمیر سے باہر ہوئی ہے۔ وہ لندن کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ نتاشا 2019 سے پہلے کئی بار کشمیر کا دورہ کر چکی ہیں اور اس موضوع پر کتابیں تصنیف کی ہیں۔ انہیں اس وقت کافی تشہیر ملی تھی جب الجزیرہ کے پروگرام میں انہوں نے بھاجپا کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری رام مادھو کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.