حیدرآباد: جموں کشمیر انتظامیہ نے سابق آئی پی ایس آفیسر منیر خان اور ان کے بھائی - ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر - بصیر خان سمیت متعدد سیاستدانوں کی سکیورٹی کور ہٹا لیا ہے یا اس میں کمی لائی ہے۔ اس فیصلے پر سابق بیوروکریٹس اور سیاست دان غصے اور بے چینی کا اظہار کیا کر رہے ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے اس فیصلے نے ’’غیر مستحکم‘‘ کشمیر میں ان کی زندگی کو ’خطرے‘ میں ڈال دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس سرینگر نے رواں برس مارچ کے مہینے میں ریاستی سطح کی کمیٹی (ایس ایل سی) کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے 57 وی آئی پیز (VIPs) جن میں سیاستدان، سابق پولیس افسران، ریٹائرڈ ججز اور میڈیا کے افراد شامل ہیں، کے 130 پرسنل سیکورٹی آفیسرز (PSOs) اور رہائشی گارڈز کو واپس لے لیا ہے۔
ایس ایس پی سرینگر کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں پولیس ہیڈ کوارٹر، سرینگر سے ایک مراسلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’30 مارچ 2024 کو ریاستی سطح کی کمیٹی (ایس ایل سی) کے ذریعے لیے گئے فیصلے کی تعمیل میں، مختلف محفوظ افراد کا حفاظتی گھیرا فوری طور پر واپس لے لیا گیا ہے۔‘‘ 2 جولائی کو جاری کردہ اس حکم نامے میں کہا گیا ہے: ’’ضلع سرینگر کے تمام زونل ایس ایس پیز اپنے متعلقہ دائرہ اختیار سے مذکورہ سی اے پی ایف/مسلح گارڈز کی مکمل واپسی کو یقینی بنائیں گے اور اسی طرح ڈی ایس پی، ڈی اے آر ڈی پی ایل سرینگر تمام پی ایس اوز/گارڈز کو فوری طور پر واپس بلا لیں گے/واپس لے لیں گے۔‘‘
جن کی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے ان میں 28 سیاستدان بھی ہیں، جن کا تعلق بی جے پی، جموں کشمیر اپنی پارٹی، پیپلز کانفرنس، نیشنل کانفرنس، کانگریس اور دیگر چھوٹی جماعتوں سے ہے، پانچ سابق جج صاحبان، چھ ریٹائرڈ پولیس اہلکار اور بصیر خان سمیت تین سابق بیوروکریٹس بھی شامل ہیں۔ حکم نامے کے مطابق جموں و کشمیر پولیس کے سابق اے ڈی جی پی منیر خان، جن کے پاس زیڈ پلس سیکیورٹی کور ہے، کی سیکورتی میں بڑی تخفیف ہوئی ہے کیونکہ ان کے پی ایس اوز اور رہائشی گارڈز کو واپس لے لیا گیا ہے، جبکہ ان کے برادر بصیر خان، زیڈ کیٹیگری کے وی آئی پیز، جو ڈویژنل کمشنر کشمیر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں، کی سیکورٹی میں بھی بڑی تخفیف ہوئی ہے۔
پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کیے جانے کے وقت منیر خان، اے ڈی جی پی امن و امان کے عہدے پر فائز تھے، جبکہ بصیر خان ڈویژنل کمشنر کشمیر تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد منیر خان کو جموں و کشمیر سوشلی اینڈ ایجوکیشنلی بیکوارڈ کمیشن (Socially & Educationally Backward Classes Commission) کا رکن مقرر کیا گیا۔
جن ریٹائرڈ اہلکاروں کی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے ان میں سے ایک نے افسر نے انتظامیہ کے فیصلے پر بے بسی کا اظہار کیا کرتے ہوئے کہا: ’’ہم کیا کر سکتے ہیں؛ یہ حکومت کا فیصلہ ہے۔۔۔ لیکن یہ (فیصلہ) ہمیں کمزور بنا دے گا۔ فیصلے کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ رد عمل نام ظاہر نہ کیے جانے کی درخواست پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا۔
جموں کشمیر اپنی پارٹی اور پیپلز کانفرنس، جن پر سیاسی مخالفین کی جانب سے ’’بی جے پی کی بی-ٹیمیں‘‘ ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، کے رہنماؤں کی سیکیورٹی میں بھی بڑی کٹوتی دیکھی گئی ہے۔ سرینگر کے سابق میئر اور اپنی پارٹی کے یوتھ صدر جنید متو، جو زیڈ سیکورٹی تحفظ یافتہ ہیں، اور اپنی پارٹی کے صوبائی صدر آصف میر پارٹی کے ان سات رہنماؤں میں شامل ہیں جن کی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ میر نے سرینگر میں حالیہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا اور این سی کے آغا روح اللہ مہدی کے خلاف الیکشن میں شرکت کرکے اپنی ضمانتی رقم بھی گنوا دی۔
حکمران جماعت بی جے پی کے چار ارکان بھی ان سیاسی رہنماؤں کی فہرست میں شامل ہیں جن کی سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ سجاد لون کی قیادت والی پیپلز کانفرنس کے لیڈران کی بھی سیکورٹی کی واپسی لے لی گئی ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان چار رہنماؤں کو اٹھانا پڑا ہے جن میں تین کا تعلق انصاری خاندان سے ہے - عمران انصاری کو فہرست میں شامل نہیں کیا گیا ہے، تاہم ان کے چچا عابد انصاری کی سیکورٹی میں کٹوتی کی گئی ہے۔
سابق قانون ساز اور زیڈ کیٹیگری سیکوڑٹی کے تحفظ یافتہ عابد انصاری نے کہا کہ سیکورٹی کی واپسی انہیں کمزور بنا دے گی اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کو محدود کر دے گی کیونکہ اسمبلی انتخابات آنے والے ہیں۔ عابد نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا: ’’میرے پاس گزشتہ 20 برسوں سے حفاظتی کور ہے جس دوران مجھ پر پانچ بار عسکریت پسندوں نے حملہ کیا ہے۔ آنے والے اسمبلی انتخابات سے قبل، سیکورٹی کور کو واپس لینے کا فیصلہ، میری سیاسی سرگرمیوں کو محدود کر دے گا۔‘‘
نیشنل کانفرنس کے چار رہنما جن میں سابق وزیر تعلیم اور رکن پارلیمنٹ محمد شفیع اوڑی اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر خزانہ طارق حمید قرہ سمیت کانگریس کے رہنما بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ اس فہرست میں چھ میڈیا اہلکار بھی شامل ہیں اور ان میں سے چار کا سیکورٹی کور واپس لے لیا گیا ہے۔ این سی لیڈر شفیع اوڑی کے فرزند ڈاکٹر سجاد اوڑی نے کہا کہ ان کے والد سابق قانون ساز ہے، وزیر اور رکن پارلیمنٹ ہیں جن کے پاس اب ’’صرف ایک پی ایس او‘‘ بچا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایل جی کے مشیر بصیر خان کو عہدے سے فارغ کر دیا گیا