نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے سے متعلق عرضی پر سماعت کرنے سے اتفاق کرلیا ہے۔ درخواست میں جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کی ہدایت دینے کی گذارش کی گئی ہے۔ ایڈوکیٹ گوپال شنکر نارائن نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ دو ماہ کے اندر اس معاملہ کو سماعت کےلئے فہرست بند کرے، جس پر چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے یقین دہانی کی کہ اس معاملہ کی سماعت دو ماہ کے اندر کی جائے گی۔
یہ درخواست آئین کی آرٹیکل 370 کے سلسلے میں دائر کی گئی ہے۔ دسمبر 2023 میں، پانچ ججوں کی بنچ نے متفقہ طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو صحیح قرار دیا تھا۔ سی جے آئی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ صدر کو آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے جبکہ آرٹیکل 370 ایک عارضی انتظام تھا۔ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات 30 ستمبر 2024 سے قبل کرانے کی ہدایت دی گئی اور مرکز سے کہا گیا کہ وہ جلد از جلد جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کردے۔
تاہم سپریم کورٹ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا کہ آیا جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کرنا آئینی طور پر درست ہے یا نہیں۔ مرکز کے سابقہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر ظہور احمد بھٹ اور خورشید احمد ملک نے اب تازہ طور پر سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرکے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا اور مرکزی حکومت کی طرف سے قبل ازیں دی گئی یقین دہانیوں پر سوال اٹھائے۔ درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ حالیہ پرامن اسمبلی انتخابی عمل کے باوجود ریاست کی بحالی کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
پروفیسر ظہور احمد بھٹ اور سماجی کارکن خورشید احمد ملک نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ ’جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کی مدت کار طے کرنے کےلئے عرضی پر فوری سماعت کی جائے‘۔ انہوں نے درخواست میں کہاکہ سالیسٹر جنرل کی طرف سے جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرنے کی یقین دہانی کے باوجود اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ اگر عدالت کی جانب سے جلد از جلد جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کی ہدایات جاری نہیں کی گئی تو اس سے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچے گا۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ ریاست کا درجہ بحال کرنے میں تاخیر سے جموں و کشمیر میں جمہوری طور پر منتخب حکومت کی طاقت میں کمی آئے گی، اس طرح وفاقیت کے نظریے کی سنگین خلاف ورزی ہوگی، جو کہ آئین ہند کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیراعلیٰ کے طور پر حلف لیا
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر جموں و کشمیر کو بروقت ریاست کا درجہ بحال نہیں کیا گیا تو یہ جموں و کشمیر کے شہریوں کے خلاف سنگین تعصب کا باعث بنے گا، جو ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔جموں و کشمیر کا جمہوری ڈھانچہ اور اس کی علاقائی سالمیت بھی بری طرح متاثر ہوگی۔