سرینگر: جموں کشمیر اپنی پارٹی (اے پی) نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’صوبہ جموں کے کھٹوعہ ضلع میں انتظامیہ نے جس مسجد کو انہدام کرنے کی کوشش کی تھی وہ زمین مسلمانوں کی ملکیت ہے اور سنہ 1931 کے ریونیو اندراج کے مطابق وہ مسلمانوں کی جائیداد ہے جہاں اس مسجد کو تعمیر کیا گیا ہے۔‘‘ اپنی پارٹی کے ترجمان اعلیٰ منتظر محی الدین نے سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس اس زمین کے دستاویز ہیں جس میں یہ صاف ظاہر ہے کہ ’’جس زمین پر مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ سنہ 1931 سے مسلمانوں کی ملکیتی زمین ہے جس کو انہوں نے مسجد کی تعمیر کے لیے وقف کیا ہے۔‘‘
منتظر محی الدین نے اس ضمن میں محکمہ مال کے دستاویز میڈیا کو دکھائے جو ان کے مطابق مذکورہ زمین کے ہیں جس پر مسجد تعمیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سنہ 1931 میں ہندوستان غیر منقسم تھا جبکہ پاکستان وجود میں ہی نہیں آیا تھا، جب سے یہ زمین مسلمانوں کی ملکیت ہے۔‘‘
غور طلب ہے کہ گزشتہ دنوں کھٹوعہ ضلع میں انتظامیہ نے، مقامی لوگوں کے مطابق، گجر بستی - نگری - علاقے میں مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ضلع انتظامیہ کٹھوعہ نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسجد کی انہدامی کے الزامات بے بنیاد ہے، تاہم پورب چک علاقے میں سرکاری زمین پر تجاوزات کو منہدم کیا گیا اور اس مقام سے مسجد 75 میٹر دور ہے۔‘‘ انتظامیہ نے یہ بھی دعویٰ کا تھا کہ ’’اس (انہدامی) کارروائی کے دوران مقامی لوگوں نے مزاحمت کی، جس میں ڈی ایس پی سمیت چھ پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔‘‘
اپنی پارٹی کے ترجمان نے پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ’’13 جولائی کے تاریخی دن پر جو جموں کشمیر انتظامیہ نے سرکاری تعطیل ختم کی ہے اس کو بحال کیا جانا چاہیے اور اپنی پارٹی کو اس روز مزار شہداء پر تاریخی روایت کے مطابق شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔‘‘
واضح رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر ایل جی انتظامیہ نے 13 جولائی کی سرکاری تعطیل اور نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ عبداللہ کے جنم دن اور وفات کی برسی پر بھی سرکاری تعطیل ختم کی تھی۔ جبکہ ڈوگرہ شاہی کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن پر سرکاری تعطیل کو فہرست میں شامل کیا۔
یہ بھی پڑھیں: مذہبی مقام منہدم کرنے کی مزاحمت کے دوران پانچ افراد زخمی - Kathua Clashes