ETV Bharat / jammu-and-kashmir

معروف براڈکاسٹر فاروق نازکی کا انتقال - فاروق نازکی انتقال

دوردرشن کیندر سرینگر اور ریڈیو کشمیر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے معروف براڈکاسٹر اور ادیب فاروق نازکی کا انتقال ہو گیا۔

معروف براڈکاسٹر فاروق نازکی کا انتقال
معروف براڈکاسٹر فاروق نازکی کا انتقال
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 6, 2024, 12:32 PM IST

Updated : Feb 6, 2024, 2:29 PM IST

سرینگر (نیوز ڈیسک) : جموں و کشمیر کے معروف براڈکاسٹر، شاعر اور قلمکار فاروق نازکی کا 83سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انکے انتقال پر جموں و کشمیر کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں ماتم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فاروق نازکی براڈکاسٹنگ کی دنیا کے کہنہ مشق پیشہ ور تھے جبکہ اردو اور کشمیری ادب میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ انکے انتقال سے کشمیر ایک ماہر سخن ور، استاد اور دانشور سے محروم ہوگیا ہے۔

شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع سے تعلق رکھنے والے فاروق نازکی کا تعلق علم و دانش سے مالامال ایک متمول خانوادے سے تھا۔ انکے خاندان میر غلام رسول نازکی بھی اعلیٰ پایہ کے شاعر اور ر تھے۔ گویا فاروق نازکی کو شاعری و دانشمندی ورثے میں ملی تھی۔

فاروق نازکی نے 1986 سے 1997 تک وزارت اطلاعات و نشریات، دور درشن کیندر سرینگر اور آل انڈیا ریڈیو سرینگر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے دور درشن کیندر اور ریڈیو کشمیر سرینگر کی باگ ڈور اسوقت سنبھالی جب کشمیر میں بھارت مخالف علیحدگی پسندی شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے حکومت ہند کیلئے اپنی خدمات سے ان اداروں کو اس سخت دور میں محفوظ رکھا اور حکومت کا نقطہ نظر عوام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

فاروق نازکی کے سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انہیں دو وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے اپنا میڈیا صلاح کار بھی بنایا۔ نازکی نے 1960 سے ’’روزنامہ مزدور‘‘ کے مدیر کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں، یہ اخبار مزدور طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتا تھا۔ فاروق نازکی کی کئی شعری تخلیقات کتابوں کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔

فاروق نازکی کو انگریزی، اردو ، فارسی اور کشمیری زبانوں پر قدرت تھی۔ وہ انتہائی بزلہ سنج تھے اور محفلوں کو زعفران زار بنانے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ خواتین خاص طور پر انکی حس مزاح کی دلدادہ تھیں۔ انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر انکے مداحوں کے تعزیتی پیغامات شائع ہونے لگے۔ کشمیر یونیورسٹی کے سابق ڈائرکٹر شوکت شفیع مسعودی نے لکھا کہ انکا انتقال نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ برصغیر کی ادبی دنیا کیلئے ایک بڑا نقصان ہے۔ سینٹرل یونیورسٹی آف کشنمیر کے سابق پروفیست حمید نسیم رفیع آبادی نے لکھا کہ وہ ایک عظیم شخص اور عظیم شاعر تھے۔ انکی ظرافت اور دانشمندی، قابل تقلید تھی۔

سرینگر (نیوز ڈیسک) : جموں و کشمیر کے معروف براڈکاسٹر، شاعر اور قلمکار فاروق نازکی کا 83سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ انکے انتقال پر جموں و کشمیر کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں ماتم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فاروق نازکی براڈکاسٹنگ کی دنیا کے کہنہ مشق پیشہ ور تھے جبکہ اردو اور کشمیری ادب میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔ انکے انتقال سے کشمیر ایک ماہر سخن ور، استاد اور دانشور سے محروم ہوگیا ہے۔

شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع سے تعلق رکھنے والے فاروق نازکی کا تعلق علم و دانش سے مالامال ایک متمول خانوادے سے تھا۔ انکے خاندان میر غلام رسول نازکی بھی اعلیٰ پایہ کے شاعر اور ر تھے۔ گویا فاروق نازکی کو شاعری و دانشمندی ورثے میں ملی تھی۔

فاروق نازکی نے 1986 سے 1997 تک وزارت اطلاعات و نشریات، دور درشن کیندر سرینگر اور آل انڈیا ریڈیو سرینگر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے دور درشن کیندر اور ریڈیو کشمیر سرینگر کی باگ ڈور اسوقت سنبھالی جب کشمیر میں بھارت مخالف علیحدگی پسندی شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے حکومت ہند کیلئے اپنی خدمات سے ان اداروں کو اس سخت دور میں محفوظ رکھا اور حکومت کا نقطہ نظر عوام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

فاروق نازکی کے سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انہیں دو وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے اپنا میڈیا صلاح کار بھی بنایا۔ نازکی نے 1960 سے ’’روزنامہ مزدور‘‘ کے مدیر کے طور پر بھی خدمات انجام دی ہیں، یہ اخبار مزدور طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتا تھا۔ فاروق نازکی کی کئی شعری تخلیقات کتابوں کی شکل میں شائع ہوئی ہیں۔

فاروق نازکی کو انگریزی، اردو ، فارسی اور کشمیری زبانوں پر قدرت تھی۔ وہ انتہائی بزلہ سنج تھے اور محفلوں کو زعفران زار بنانے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ خواتین خاص طور پر انکی حس مزاح کی دلدادہ تھیں۔ انکے انتقال کی خبر پھیلتے ہی سوشل میڈیا پر انکے مداحوں کے تعزیتی پیغامات شائع ہونے لگے۔ کشمیر یونیورسٹی کے سابق ڈائرکٹر شوکت شفیع مسعودی نے لکھا کہ انکا انتقال نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ برصغیر کی ادبی دنیا کیلئے ایک بڑا نقصان ہے۔ سینٹرل یونیورسٹی آف کشنمیر کے سابق پروفیست حمید نسیم رفیع آبادی نے لکھا کہ وہ ایک عظیم شخص اور عظیم شاعر تھے۔ انکی ظرافت اور دانشمندی، قابل تقلید تھی۔

Last Updated : Feb 6, 2024, 2:29 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.