ETV Bharat / jammu-and-kashmir

سی اے ٹی نے بیوہ کے دوبارہ شادی کے حق کا کیا دفاع، تقرری منسوخ کرنے کی درخواست کی مسترد - CAT Srinagar on Widows Remarry

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 1, 2024, 2:52 PM IST

سرینگر میں سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل نے دوبارہ شادی کرنے کی وجہ سے ایک خاتون کی ’’رحم دلانہ تقرری‘‘ کو کالعدم قرار دیے جانے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

ا
سی اے ٹی (فائل فوٹو)

سرینگر (جموں کشمیر) : سرینگر میں سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت شدہ بنیادی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بیوہ کی جانب سے دوبارہ شادی کرنے کی وجہ سے ان (بنیادی) حقوق کو کم یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ٹریبونل نے دوبارہ شادی شدہ عورت کی ’’رحم دلانہ تقرری‘‘ (پہلا خاوند فوت ہونے کی وجہ سے ملی سرکاری نوکری) کو کالعدم قرار دئے جانے کی ایک درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیوہ نے دوسری شادی کی جو اس کی شریعت میں جائز ہے، اور اس وجہ سے اسے آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ سی اے ٹی بنچ کے ممبران، ایم ایس لطیف (ممبر، جوڈیشل) اور پرشانت کمار (ممبر، ایڈمنسٹریٹو) نے زور دے کر کہا: ’’آرٹیکل 21 کے تحت حاصل حقوق کو صرف بیوہ کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

سی اے ٹی(CAT) نے سپریم کورٹ کے گزشتہ (کئی) فیصلوں کا بھی حوالہ دیا جن میں دوبارہ شادی کی سماجی اور ذاتی اہمیت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ ملازمت کی شرط کے طور پر دوبارہ شادی کو محدود کرنے والی کوئی بھی قانونی دفعات ممکنہ طور پر آئینی حقوق کی خلاف ورزی کر سکتی ہیں۔ اور اس کیس میں سال 1988کے ایک کیس (سبھنتی دیوی بمقابلہ سکشا ادھیکشک) کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا۔

یہ مقدمہ سرکاری ملازمت کے دوران اپنے شوہر کی 2014 میں موت کے بعد ہمدردی کی بنیاد پر فوت ہوئے شخص کی خاتون کو سرکاری نوکری فراہم کیے جانے سے متعلق ہے۔ اس کیس میں متوفی کی والدہ اور بھائی (یعنی بیوہ کی ساس اور دیور) نے کورٹ میں خاتون (بیوہ) کی تقرری کو چیلنج کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے فرزند/بھائی کی موت کے بعد سرکاری نوکری ’ہمدردی‘ کی بنیاد پر اس کی بیوہ کو دی گئی تاہم اس نے دوسری شادی کی اور اس لحاظ سے اس نوکری پر اب متوفی کی والدہ اور بھائی کا حق ہے۔

بنچ نے اس کیس میں مذہبی جہت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام، بیواؤں کی دوبارہ شادی کی ممانعت نہیں کرتا، یہ حق آرٹیکل 21 کے تحت محفوظ ہے۔‘‘ سی اے ٹی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’’اگرچہ معاشرتی توقعات ایک بہو کے لیے اپنے متوفی شوہر کے والدین کی ذمہ داریوں کی تجویز کر سکتی ہیں، لیکن یہ رضاکارانہ طور پر ہے اور قانونی طور پر وہ اس بات کی پابند نہیں ہے۔‘‘ ادھر، محکمہ پی ایچ ای، جس میں متوفی کام کر رہا تھا، نے جواب دیا کہ متوفی کا بھائی ایک بالغ اور صحت مند ہونے کی وجہ سے اپنی کفالت کرنا پر قادر ہے اور وہ دوبارہ شادی شدہ خاتون، مدعا علیہ (اس کی بھابھی) کی تنخواہ کے کسی بھی حصے کا حقدار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کلرک کی ’غلطی‘ نے شہری کو چھ سال ملازمت سے دور رکھا - Clerical Oversight Costs Employment

سرینگر (جموں کشمیر) : سرینگر میں سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت ضمانت شدہ بنیادی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بیوہ کی جانب سے دوبارہ شادی کرنے کی وجہ سے ان (بنیادی) حقوق کو کم یا ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ٹریبونل نے دوبارہ شادی شدہ عورت کی ’’رحم دلانہ تقرری‘‘ (پہلا خاوند فوت ہونے کی وجہ سے ملی سرکاری نوکری) کو کالعدم قرار دئے جانے کی ایک درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’بیوہ نے دوسری شادی کی جو اس کی شریعت میں جائز ہے، اور اس وجہ سے اسے آئین کے تحت حاصل بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ سی اے ٹی بنچ کے ممبران، ایم ایس لطیف (ممبر، جوڈیشل) اور پرشانت کمار (ممبر، ایڈمنسٹریٹو) نے زور دے کر کہا: ’’آرٹیکل 21 کے تحت حاصل حقوق کو صرف بیوہ کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

سی اے ٹی(CAT) نے سپریم کورٹ کے گزشتہ (کئی) فیصلوں کا بھی حوالہ دیا جن میں دوبارہ شادی کی سماجی اور ذاتی اہمیت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ ملازمت کی شرط کے طور پر دوبارہ شادی کو محدود کرنے والی کوئی بھی قانونی دفعات ممکنہ طور پر آئینی حقوق کی خلاف ورزی کر سکتی ہیں۔ اور اس کیس میں سال 1988کے ایک کیس (سبھنتی دیوی بمقابلہ سکشا ادھیکشک) کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا۔

یہ مقدمہ سرکاری ملازمت کے دوران اپنے شوہر کی 2014 میں موت کے بعد ہمدردی کی بنیاد پر فوت ہوئے شخص کی خاتون کو سرکاری نوکری فراہم کیے جانے سے متعلق ہے۔ اس کیس میں متوفی کی والدہ اور بھائی (یعنی بیوہ کی ساس اور دیور) نے کورٹ میں خاتون (بیوہ) کی تقرری کو چیلنج کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے فرزند/بھائی کی موت کے بعد سرکاری نوکری ’ہمدردی‘ کی بنیاد پر اس کی بیوہ کو دی گئی تاہم اس نے دوسری شادی کی اور اس لحاظ سے اس نوکری پر اب متوفی کی والدہ اور بھائی کا حق ہے۔

بنچ نے اس کیس میں مذہبی جہت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام، بیواؤں کی دوبارہ شادی کی ممانعت نہیں کرتا، یہ حق آرٹیکل 21 کے تحت محفوظ ہے۔‘‘ سی اے ٹی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’’اگرچہ معاشرتی توقعات ایک بہو کے لیے اپنے متوفی شوہر کے والدین کی ذمہ داریوں کی تجویز کر سکتی ہیں، لیکن یہ رضاکارانہ طور پر ہے اور قانونی طور پر وہ اس بات کی پابند نہیں ہے۔‘‘ ادھر، محکمہ پی ایچ ای، جس میں متوفی کام کر رہا تھا، نے جواب دیا کہ متوفی کا بھائی ایک بالغ اور صحت مند ہونے کی وجہ سے اپنی کفالت کرنا پر قادر ہے اور وہ دوبارہ شادی شدہ خاتون، مدعا علیہ (اس کی بھابھی) کی تنخواہ کے کسی بھی حصے کا حقدار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کلرک کی ’غلطی‘ نے شہری کو چھ سال ملازمت سے دور رکھا - Clerical Oversight Costs Employment

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.