ETV Bharat / jammu-and-kashmir

عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد - Habitual Litigant Fined

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 11, 2024, 3:27 PM IST

ہائی کورٹ نے سرینگر کے ایک رہائشی پروفیسر عبدالغنی بٹ کی عرضی نہ صرف خارج کیا بلکہ اس پر چار ہفتوں کے اندر اندر لیٹیگنٹ ویلفیئر فنڈ میں ایک لاکھ روپے (بطور جرمانہ) جمع کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے عبدالغنی بٹ کو عادی درخواست گزار قرار دیتے ہوئے اس کا ذہنی علاج کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد
عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد (فائل فوٹو)

سرینگر (جموں کشمیر) : ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے ایک سخت فیصلے سناتے ہوئے پروفیسر عبد الغنی بھٹ کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے خواتین کے تئیں ’’غلط فہمی، ناقص ذہن‘‘ رکھنے کی پاداش میں ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ یہ کیس ’’دیکھ بھال‘‘ (maintenance)

سے متعلق ہے۔

عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد
عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد (کورٹ ویب سائٹ)

اپنے بیٹے کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والے 81سالہ پروفیسر عبد الغنی بھٹ نے جموں کشمیر کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دفعہ 488 کے تحت اپنی بہو کی طرف سے شروع کی گئی ’’دیکھ بھال‘‘ کی کارروائی کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی۔ درخواست گزار نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کے بیٹے نے مدعا علیہ کو طلاق دے دی ہے اور اس طرح دیکھ بھال کی درخواست قابل قبول نہیں ہے۔

مزید برآں، انہوں نے چوتھے ایڈیشنل سیشن جج، گوہر مجید دلال پر کارروائی کو سنبھالنے میں تعصب اور بدانتظامی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا :’’مدعا علیہ نمبر ۔ 2 (بہو) جوان اور کنواری نہیں پائی گئی، وہ ایک بوڑھی اور بنجر (حاملہ ہونے کے لائق نہیں) پائی گئی۔ جو پہلے ہی ازدواجی یا غیر ازدواجی یا قبل ازدواجی جنسی تعلقات سے لطف اندوز ہو چکی تھی۔‘‘ پروفیسر نے مدعا علیہ (بہو) پر سنگین الزامات بھی عائد کیے ہیں جن میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’وہ طلاق یافتہ ہے، گھر سے نکالی ہوئی ہے۔ وہ ایک نفسیاتی مریض، (ہر وقت) بحث کرنے والی، لڑائی جھگڑا کرنے والی، نافرمان، بدتمیز، بیمار عورت، جنسی بیماریوں میں مبتلا، لالچ اور چوری کی عادات میں ماہر اور ’’ہنی ٹریپر‘‘ (honey trapper) ہے۔‘‘

تاہم، کیس کی صدارت کرنے والے جسٹس سنجیو کمار (ڈبلیو پی (سی) نمبر ۔ 1248/2024) نے درخواست گزار کی زبان کو ’’توہین آمیز‘‘ اور ’’کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول‘‘ قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کا نفسیاتی مداخلت (ذہنی علاج) کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ جسٹس کمار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’عائد کیے گئے الزامات درخواست گزار کی خواتین، خاص طور پر اپنی بہو کے تئیں خراب ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے بیٹے نے مدعا علیہ (یعنی درخواست گزار کی بہو) کو طلاق دے دی ہے۔ لہٰذا اس صورت میں دیکھ بھال (Maintenance) کی عرضی قابل قبول نہیں ہے۔

فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ درخواست گزار ایک ’’عادی مدعی‘‘ (عادتاً کیس کرنے والا) بن چکا ہے، جو اس کی عدالتی نظام پر سے اعتماد کی کمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہ کہ مدعی ججوں کو مسلسل ہراساں کے عمل سے ’’عدلیہ کے لیے کینسر‘‘ بن چکا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو چار ہفتوں کے اندر لیٹیگنٹ ویلفیئر فنڈ میں رقم (ایک لاکھ روپے) جمع کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت جاری کی ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر رہا تو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: فلم ہمارے بارہ کے یہ تین ڈائیلاگ ہٹانے کا مطالبہ - Hamare Baarah

سرینگر (جموں کشمیر) : ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے ایک سخت فیصلے سناتے ہوئے پروفیسر عبد الغنی بھٹ کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کو خارج کرتے ہوئے خواتین کے تئیں ’’غلط فہمی، ناقص ذہن‘‘ رکھنے کی پاداش میں ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ یہ کیس ’’دیکھ بھال‘‘ (maintenance)

سے متعلق ہے۔

عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد
عادی درخواست گزار پر ہائی کورٹ نے کیا جرمانہ عائد (کورٹ ویب سائٹ)

اپنے بیٹے کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والے 81سالہ پروفیسر عبد الغنی بھٹ نے جموں کشمیر کوڈ آف کرمنل پروسیجر کی دفعہ 488 کے تحت اپنی بہو کی طرف سے شروع کی گئی ’’دیکھ بھال‘‘ کی کارروائی کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی۔ درخواست گزار نے الزام عائد کیا ہے کہ اس کے بیٹے نے مدعا علیہ کو طلاق دے دی ہے اور اس طرح دیکھ بھال کی درخواست قابل قبول نہیں ہے۔

مزید برآں، انہوں نے چوتھے ایڈیشنل سیشن جج، گوہر مجید دلال پر کارروائی کو سنبھالنے میں تعصب اور بدانتظامی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا :’’مدعا علیہ نمبر ۔ 2 (بہو) جوان اور کنواری نہیں پائی گئی، وہ ایک بوڑھی اور بنجر (حاملہ ہونے کے لائق نہیں) پائی گئی۔ جو پہلے ہی ازدواجی یا غیر ازدواجی یا قبل ازدواجی جنسی تعلقات سے لطف اندوز ہو چکی تھی۔‘‘ پروفیسر نے مدعا علیہ (بہو) پر سنگین الزامات بھی عائد کیے ہیں جن میں دعویٰ کیا ہے کہ ’’وہ طلاق یافتہ ہے، گھر سے نکالی ہوئی ہے۔ وہ ایک نفسیاتی مریض، (ہر وقت) بحث کرنے والی، لڑائی جھگڑا کرنے والی، نافرمان، بدتمیز، بیمار عورت، جنسی بیماریوں میں مبتلا، لالچ اور چوری کی عادات میں ماہر اور ’’ہنی ٹریپر‘‘ (honey trapper) ہے۔‘‘

تاہم، کیس کی صدارت کرنے والے جسٹس سنجیو کمار (ڈبلیو پی (سی) نمبر ۔ 1248/2024) نے درخواست گزار کی زبان کو ’’توہین آمیز‘‘ اور ’’کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابل قبول‘‘ قرار دیتے ہوئے درخواست گزار کا نفسیاتی مداخلت (ذہنی علاج) کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ جسٹس کمار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’عائد کیے گئے الزامات درخواست گزار کی خواتین، خاص طور پر اپنی بہو کے تئیں خراب ذہنیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کے بیٹے نے مدعا علیہ (یعنی درخواست گزار کی بہو) کو طلاق دے دی ہے۔ لہٰذا اس صورت میں دیکھ بھال (Maintenance) کی عرضی قابل قبول نہیں ہے۔

فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ درخواست گزار ایک ’’عادی مدعی‘‘ (عادتاً کیس کرنے والا) بن چکا ہے، جو اس کی عدالتی نظام پر سے اعتماد کی کمی کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہ کہ مدعی ججوں کو مسلسل ہراساں کے عمل سے ’’عدلیہ کے لیے کینسر‘‘ بن چکا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو چار ہفتوں کے اندر لیٹیگنٹ ویلفیئر فنڈ میں رقم (ایک لاکھ روپے) جمع کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت جاری کی ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر رہا تو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: فلم ہمارے بارہ کے یہ تین ڈائیلاگ ہٹانے کا مطالبہ - Hamare Baarah

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.