اننت ناگ (جموں و کشمیر): لوک۔سبھا انتخابات 2024 منعقد ہونے کے بعد جموں کشمیر میں طویل مدت کے بعد جمہوریت ایک بار پھر پٹری پر لوٹ رہی ہے۔
انتخابات منعقد ہونے سے نہ صرف سیاسی گلیاروں میں پھر سے آوازیں گونجی بلکہ رائے دہندگان کی بھرپور شرکت سے اس بات کا خلاصہ ہوا کہ عوام نے اپنے جذبہ کا اظہار ووٹ کے ذریعہ کیا ہے۔
دو سیٹوں پر کامیابی حاصل ہونے سے اگرچہ این سی کے خیمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ کی شکست نے این سی کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔
ان انتخابات میں سب سے دلچسپ پہلو یہ بھی رہا کہ دو سابق وزرائے اعلی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی نقطہ نظر سے ان انتخابات میں پی ڈی پی کی کارکردگی سب سے زیادہ خراب رہی،کیونکہ پورے جموں کشمیر پر ایک وقت اپنا دبدبہ رکھنے والی پی ڈی پی ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔جس سے یہ صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا الائنس کے تحت سیٹ شیئرنگ میں پی ڈی پی کو اعتماد میں نہ لینے سے پارٹی کی زمینی سطح کی کارکردگی منظر عام پر آگئی۔
پی ڈی پی کے ساتھ سیٹ شیئرنگ نہ کرنے کے تناظر میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے انتخابات سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ پی ڈی پی ایک کمزور اور بکھری ہوئی پارٹی ہے لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ انڈیا اتحاد نے پی ڈی پی کے ساتھ سیٹ شیئرنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ عملی طور پارٹی کی ساخت کو ثابت کرنے کے لئے محبوبہ مفتی نے ان انتخابات میں جی توڑ محنت کی لیکن ان کی محنت کام نہ آئی۔
انڈیا بلاک کا حصہ ہونے کے باوجود پی ڈی پی تنہا ہو گئی، جس کے بعد پی ڈی پی نے وادی میں تینوں سیٹوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے۔ انتخابی مہم چلانے میں پی ڈی پی نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، اپنی ماں کا ساتھ دینے کے لئے التجا مفتی بھی سیاسی میدان میں کود گئیں لیکن لوگوں پر التجا کی التجا کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
اننت ناگ راجوری لوک سبھا نشست:
یہاں پر سبھی سیاسی پارٹیوں کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں ،وہیں پی ڈی پی نے بھی اس نشست کو حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، کیونکہ حد بندی کے بعد دو خطوں کو ملانے سے اس نشست کا سیاسی حُلیہ(نقشہ) بالکل تبدیل ہو گیا ہے۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ وادی میں اپنی سیاسی رسائی کو ممکن بنانے کے لئے بی جے پی یہ سیٹ حاصل کرنے کے فراق میں ہے، لیکن یہ سب خدشات اس وقت دور ہوگئے جب بی جے پی نے اس سیٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ بی جے پی کے اس فیصلہ نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا راستہ ہموار کر دیا، کیونکہ اس لڑائی میں سب سے بڑی سیاسی پارٹیاں یہی دو پارٹیاں تھیں۔
اننت ناگ راجوری لوک سبھا نشست پر دونوں پارٹیوں کے مضبوط لیڈر مد مقابل تھے، جس سے یہ تصور تھا کہ دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے کی ٹکر ہوگی۔ یہ ایسے قد آور سیاست دان ہیں جن کی سیاسی طور اپنے علاقوں پر گرفت مظبوط تھی۔
پونچھ راجوری میں میاں الطاف جبکہ جنوبی کشمیر میں پی ڈی پی کا دبدبہ رہا ہے، لیکن نتائج آنے کے بعد یہ ایک طرفہ مقابلہ ثابت ہوا۔
این سی کے میاں الطاف کی بھاری اکثریت:
اس سیٹ پر این سی کے میاں الطاف کا بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنا یقینی طور پر پی ڈی پی کے لئے ایک چیلینج بن گیا گیا ہے جس میں سب سب سے بڑا چلینج آنے والے اسمبلی انتخابات ہونگے۔
ماضی میں جنوبی کشمیر پی ڈی پی کا مرکز مانا جاتا تھا، بائیکاٹ کے باوجود جنوبی کشمیر میں پی ڈی پی کا دبدبا برقرار رہتا تھا ،لیکن 2024 کے لوک سبھا نتائج پی ڈی پی کے لئے حیران کن ثابت ہوئے جس سے ثابت ہوگیا کہ وادی خاص کر جنوبی کشمیر میں ان کی گرفت کافی کمزور ہو گئی ہے۔
جنوبی کشمیر پر پی ڈی پی کی گرفت کا ماضی کا سیاسی منظر نامہ:
سنہ 2002 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے 16 سیٹوں میں 10 سیٹوں پر جنوبی کشمیر میں کامیابی حاصل کی تھی۔ سنہ 2004 میں محبوبہ مفتی نے جنوبی کشمیر کے حلقہ انتخاب اننت ناگ سے پارلیمانی انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی تھی۔
محبوبہ مفتی نے جب پی ڈی پی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی:
محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی کی ٹکٹ پر سنہ 2002 میں اسمبلی انتخابات میں حلقہ انتخاب پہلگام اور سنہ 2008 میں حلقہ انتخاب وچی سے کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن محبوبہ مفتی کو اس وقت شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جب سنہ 1999 میں منعقدہ پارلیمانی سیٹ پر انہوں نے سرینگر سے انتخابات میں حصہ لیا تھا جہاں ان کے حریف نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ نے جیت درج کی تھی، سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے 28 سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی اس دوران بھی سب سے زیادہ سیٹیں جنوبی کشمیر میں ملی تھیں۔
پی ڈی پی کا عروج اور زوال:
سنہ 1999 میں مرحوم مفتی محمد سعید نے کانگریس کا دامن چھوڑ کر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کے نام سے ایک علاقائی پارٹی قائم کی، محبوبہ مفتی کو پارٹی کا صدر جبکہ مفتی محمد سعید کو سرپرست اعلی منتخب کیا گیا، اس وقت وادی میں حالات سازگار نہیں تھے، ہیلنگ ٹچ پالیسی کا نعرہ دیتے ہوئے مفتی محمد سعید نے کہا تھا کہ جماعت کا بنیادی مقصد حالات کے شکار کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم لگانا ہے، باپ بیٹی نے مل کر عوام میں ہیلنگ ٹچ پالیسی کے تحت ڈور ٹو ڈور مہم چلائی جس کے ثمر آور نتائج سامنے آئے تھے۔
جب مرحوم مفتی محمد سعید کا فارمولہ کامیاب ہو گیا:
لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے پی ڈی پی نے مرحوم مفتی محمد سعید کی سرپرستی میں سنہ 2002 کے اسمبلی انتخابات سے قبل جموں و کشمیر میں سیلف رول ،سرحدیں کھولنے، فوجی انخلاء، پاکستان کے ساتھ بلا مشروط بات چیت ، جیسے کئی نعروں کا خوب استعمال کیا گیا اور وہ نعرے تب ثمر آور ثابت ہوئے تھے جب اُن انتخابات میں پی ڈی پی 16 سیٹوں پر قابض ہو گئی اور ایک نئی سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی تھی ،جس کے بعد مرحوم مفتی محمد سعید نے تین برس تک پی ڈی پی اور کانگریس مخلوط سرکار کی بحیثیت وزیر اعلیٰ باگ ڈور سنبھالی تھی۔
سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی کی بھاری اکثریت:
سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس کو شکست دے کر 28سیٹیں جیت لیں اور پی ڈی پی ایک بار پھر سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھری ۔ اسمبلی کے وجود میں آنے کے اگلے تین ماہ تک سرکار کی تشکیل پر تذبذب برقرار رہا اور ایجنڈا آف الائنس کے دستاویزی معاہدے کے تحت مفتی محمد سعید نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا، اسی فیصلہ کے بعد پی ڈی پی کا زوال شروع ہونے لگا کیونکہ مفتی محمد سعید انتخابی ریلیوں میں بی جے پی پر فرقہ پرست ہونے کا الزام لگا کر اُسے دور رکھنے کی لوگوں سے ووٹ دینے کی اپیل کر رہے تھے
مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد گورنر راج نافذ ہوا:
سنہ 2015 میں مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد جموں کشمیر میں گورنر راج نافذ ہوا۔ تین ماہ تک سوچ وچار کے بعد محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ پھر سے ہاتھ ملایا۔ سنہ 2016 میں حزب کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کئی ماہ تک وادی میں حالات کافی ناساز رہے جس دوران سو سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے، حالات پٹری پر دوبارہ لوٹے لیکن عوام میں پی ڈی پی کا اعتماد ختم ہوتا گیا اور جماعت کی ساخت کمزور ہونے لگی، بعد میں محبوبہ مفتی نے ٹافی دودھ والے بیان پر عوام سے معافی مانگی اور یہ بھی کہا کہ بے جے پی کے ساتھ اتحاد کرنا ایک زہر کا پیالہ ثابت ہوا۔
بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر پی ڈی پی نے عوام میں اپنا اعتماد کھویا:
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرنے سے پی ڈی پی نے عوام میں اپنا اعتماد کھو دیا، جس کے نتائج آج سامنے آرہے ہیں، ان کے مطابق محبوبہ مفتی خوداری پر اڑی رہیں وہ سینئر رہنماوں کی رائے اور مشوروں کو پوری طرح سے نظر انداز کرکے اپنے رشتہ داروں اور قریبی لوگوں کو ترجیح دیتی تھیں جس نے پارٹی میں اندرونی اختلافات کو جنم دیا اور اس کے سنگین نتائج تب سامنے آگئے جب ،حسیب درابو، الطاف بخاری ،بشارت بخاری ،عمران انصاری سمیت کئی سرکردہ رہنما اور سابق وزراء پارٹی چھوڑ کر چلے گئے جس سے کئی انتخابی حلقوں میں پارٹی کا سیاسی مستقبل تقریباً ختم ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: