ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کانگریس نیشنل کانفرنس اتحاد سے جموں کشمیر میں پی ڈی پی کا شیرازہ بکھر رہا ہے - PDP

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Aug 23, 2024, 8:04 PM IST

جموں و کشمیر جب ایک ریاست تھی تو اسکی آخری حکومت پی ڈی پی اور بھاجپا کے اتحاد کی تھی اور اس حکومت کے دو آخری وزرائے اعلیٰ پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید اور انکی دختر محبوبہ مفتی تھے۔ دس سال کے بعد جب جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں تو اس پارٹی کا مستقبل ڈانواڈول نظر آرہا ہے۔ ای ٹی وی بھارت کے نامہ نگار میر فرحت نے اس رپورٹ میں چند فوری وجوہات کا احاطہ کیا ہے۔

ا
محبوبہ مفتی (ای ٹی وی بھارت)

سرینگر (جموں کشمیر) : نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس کی جانب سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل اتحاد کے اعلان نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیلئے چیلنج تو پیدا کیا ہے لیکن اس سے زیادہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا پی ڈی پی کیلئے یہ اتحاد کسی بری خبر سے کم نہیں ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ این سی کانگریس اتحاد سے پی ڈی پی کے معدودے چند سیٹوں پر جیت کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں کیونکہ پارٹی میں بغاوت کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے اور لوگ یہ بھولنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ اسی پارٹی نے 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے سابق ریاست کے زوال کا آغاز کیا تھا۔

کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے ’انڈیا‘ اتحاد کے معاہدے کے مطابق جموں کشمیرمیں سبھی 90 نشستوں پر ایک ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے پی ڈی پی الگ تھلگ پڑگئی ہے کیونکہ بظاہر دلی کی سطح پر پی ڈی پی بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ اس اتحاد کو جموں صوبے کی 43 سیٹوں پر بی جے پی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا تاہم کشمیر صوبے کی 47 سیٹوں پر کمزور اور بکھری ہوئی اپوزیشن شاید اس اتحاد کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ کمزور پی ڈی پی کے علاوہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پی ڈی پی کی کوکھ سے پیدا ہوئی اپنی پارٹی اور ایسی ہی شبیہہ رکھنے والی سجاد لون کی پیپلز کانفرنس اس اتحاد کیلئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ چند ایک جگہوں پر عوامی اتحاد پارٹی اور آزاد امیدوار کڑا مقابلہ دے سکتے ہیں۔

جب این سی اور کانگریس سیٹوں کی تقسیم پر بات چیت کر رہے تھے، یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ پی ڈی پی کو اس اتحاد میں شریک کرنے کیلئے غور کیا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کانگریس اور پی ڈی پی کے رہنما اس حوالے سے رابطے میں ہیں لیکن جب اتحاد کا اعلان ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ محض قیاس آرائیاں تھیں، جو کشمیر کی سیاسی افواہ ساز فیکٹری کی پیداوار تھی۔

کانگریس کے ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی پی کبھی بھی اتحاد قائم کرنے کے اس عمل میں شریک نہیں تھی بلکہ انکے مطابق اس حوالے سے جو خبریں منظر عام پر آئیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھیں۔ تاہم راہل گاندھی اور کھرگے کی سرینگر آمد کے بعد جب این سی اور کانگریس نے اتحاد کا اعلان کیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ پی ڈی پی اس کشتی میں سوار نہیں ہے۔

کانگریس کے ایک سینئر لیڈر، جو سیٹ شیئرنگ بات چیت کا حصہ ہیں، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انتخاب سے قبل اتحاد پر غور و خوض صرف این سی اور کانگریس کے درمیان ہو رہا تھا، اس بات چیت میں پی ڈی پی کہیں نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان قبل از انتخابات اتحاد، انڈیا الائنس کی بنیاد کے مطابق کیا گیا تھا۔

نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ پی ڈی پی نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں انکے دو امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑا جنہیں انڈیا الائنس کے امیدواروں کے طور پر میدان میں اتارا گیا تھا۔ اس پس منظر میں ہم اس پارٹی کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں اتحاد کے لیے کیسے بات کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی ڈی پی 1999 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی این سی کی اہم سیاسی مخالف تھی اور اسی پارٹی نے این سی کو پچھلے 25 برسوں میں دو بار اقتدار سے باہر کیا۔ ہم اپنے اہم مخالف کو دوبارہ منظم کرنے میں کیوں مدد کریں جو اب 2019 کے بعد زندہ رہنے کے لئے جد و جہد کر رہا ہے۔ لہذا، کانگریس-این سی مذاکرات کے دوران ہمارے اہم مخالف کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد زیر بحث ہی نہیں تھا۔‘‘

جب این سی اور کانگریس اتحاد کے لیے بات چیت کر رہے تھے، پی ڈی پی پہلی پارٹی تھی جس نے اسمبلی حلقوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا۔ اب تک پی ڈی پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے 31 حلقوں کے انچارجز کا اعلان کیا ہے۔ ان 31 میں سے صرف 14 پی ڈی پی میں جانے پہچانے چہرے ہیں جبکہ باقی 17 سبھی نئے چہرے ہیں جو الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ تاہم، اس بغاوت کے درمیان پارٹی کے لیے یہ بات خوش آئند ہے کہ اس کے کئی پرانے رہنما ٹکٹ کے لیے دوبارہ پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔

ان اعلانات نے پارٹی میں ایک بڑی بغاوت کو جنم دیا کیونکہ پارٹی کے چھ نمایاں چہروں نے غصے میں پارٹی چھوڑ دی۔ ان میں سے وچی سے سابق رکن اسمبلی اعجاز میر، ڈی ڈی سی رکن اور ترجمان ڈاکٹر ہربخش سنگھ اور پی ڈی پی کے چیف ترجمان سہیل بخاری شامل ہیں جنہیں ان وفاداروں میں جانا جاتا تھا جو 5 اگست 2019 کے بعد محبوبہ مفتی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے جبکہ پارٹی کے 40 اہم لیڈران اور سینکڑوں کارکنان نے پارٹی کو خیر باد کہا اور اپنی پارٹی بنائی، جسکی قیادت محبوبہ کے ایک سابق وزیر اور دولتمند تاجر الطاف بخاری کر رہے ہیں۔

پانچ اگست کے بعد اس کے 40 رہنماؤں کے اخراج اور تازہ بغاوت کے باوجود، پی ڈی پی کے سابق وزیر نعیم اختر کو امید ہے کہ پی ڈی پی متعدد سیٹیں جیت کر نئی، بے اختیار اسمبلی میں داخل ہوگی۔ نعیم اختر، جو سابق حکومت میں وزیر تعلیم رہ چکے ہیں، کے مطابق ’’پی ڈی پی اسمبلی میں لوگوں کے لیے ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے گی، اس سے قطع نظر کہ پارٹی کے کتنے امیدوار کامیاب ہوجائیں گے، اسمبلی کی اخلاقی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں رہے گی چاہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔‘‘

سیاسی تجزیہ کاروں نے کہا کہ 2014 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد اور لیڈروں اور کارکنوں کی وفاداری کی قدر نہ کرنے نے پی ڈی پی کو موجودہ سیاسی صورتحال میں سب سے کمزور پارٹی کے طور پر چھوڑ دیا ہے۔ سینئر صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کا کہنا ہے کہ ’’پی ڈی پی نے 2015 اور 2016 میں نظریاتی مخالف بی جے پی کے ساتھ متنازع گٹھ جوڑ کیا، اور پھر شہری ہلاکتوں اور پیلٹ گن کے استعمال کو جائز ٹھہرایا اور اس سیاسی خودکشی کے منفی اثرات کا خمیازہ پی ڈی پی آج بھی بھگت رہی ہے۔‘‘ گیلانی کے مطابق ’’محبوبہ مفتی کیلئے پارلیمانی انتخابات میں شکست فاش سے دوچار ہونے کے بعد پارٹی میں خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے تھی، لیکن یہ بدستور خوش فہمی کی شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں پی ڈی پی اپنی کمزور ترین وکٹ پر ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی پی میں بغاوت، منڈیٹ نہ ملنے پر جنوبی کشمیر کے کئی لیڈر باغی - Revolt in PDP

گیلانی نے مزید کہا کہ انتخابی سرگرمیوں کے عین درمیان میں پارٹی کے اندر بغاوت اس کے لیے کسی زلزلے سے کم نہیں ہے جس کے آفٹر شاکس اسے 4 اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کے دن محسوس ہوں گے۔

پارٹی سے لیڈروں اور کارکنوں کا انخلاء اور جیتنے کی اہلیت رکھنے والے کم و بیش 15 سابق ایم ایل ایز کی غیر موجودگی ایک سیاسی زلزلہ ہے جسے پی ڈی پی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ وفاداری اور اخلاقیات کی قدر نہیں کرتی، بلکہ صرف قلیل مدتی سیاسی فائدہ دیکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اگر پی ڈی پی محض 8 اسمبلی حلقوں میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

سرینگر (جموں کشمیر) : نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس کی جانب سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل اتحاد کے اعلان نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیلئے چیلنج تو پیدا کیا ہے لیکن اس سے زیادہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا پی ڈی پی کیلئے یہ اتحاد کسی بری خبر سے کم نہیں ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ این سی کانگریس اتحاد سے پی ڈی پی کے معدودے چند سیٹوں پر جیت کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں کیونکہ پارٹی میں بغاوت کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے اور لوگ یہ بھولنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ اسی پارٹی نے 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے سابق ریاست کے زوال کا آغاز کیا تھا۔

کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے ’انڈیا‘ اتحاد کے معاہدے کے مطابق جموں کشمیرمیں سبھی 90 نشستوں پر ایک ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے پی ڈی پی الگ تھلگ پڑگئی ہے کیونکہ بظاہر دلی کی سطح پر پی ڈی پی بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ اس اتحاد کو جموں صوبے کی 43 سیٹوں پر بی جے پی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا تاہم کشمیر صوبے کی 47 سیٹوں پر کمزور اور بکھری ہوئی اپوزیشن شاید اس اتحاد کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ کمزور پی ڈی پی کے علاوہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پی ڈی پی کی کوکھ سے پیدا ہوئی اپنی پارٹی اور ایسی ہی شبیہہ رکھنے والی سجاد لون کی پیپلز کانفرنس اس اتحاد کیلئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ چند ایک جگہوں پر عوامی اتحاد پارٹی اور آزاد امیدوار کڑا مقابلہ دے سکتے ہیں۔

جب این سی اور کانگریس سیٹوں کی تقسیم پر بات چیت کر رہے تھے، یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ پی ڈی پی کو اس اتحاد میں شریک کرنے کیلئے غور کیا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کانگریس اور پی ڈی پی کے رہنما اس حوالے سے رابطے میں ہیں لیکن جب اتحاد کا اعلان ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ محض قیاس آرائیاں تھیں، جو کشمیر کی سیاسی افواہ ساز فیکٹری کی پیداوار تھی۔

کانگریس کے ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی پی کبھی بھی اتحاد قائم کرنے کے اس عمل میں شریک نہیں تھی بلکہ انکے مطابق اس حوالے سے جو خبریں منظر عام پر آئیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھیں۔ تاہم راہل گاندھی اور کھرگے کی سرینگر آمد کے بعد جب این سی اور کانگریس نے اتحاد کا اعلان کیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ پی ڈی پی اس کشتی میں سوار نہیں ہے۔

کانگریس کے ایک سینئر لیڈر، جو سیٹ شیئرنگ بات چیت کا حصہ ہیں، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انتخاب سے قبل اتحاد پر غور و خوض صرف این سی اور کانگریس کے درمیان ہو رہا تھا، اس بات چیت میں پی ڈی پی کہیں نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان قبل از انتخابات اتحاد، انڈیا الائنس کی بنیاد کے مطابق کیا گیا تھا۔

نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ پی ڈی پی نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں انکے دو امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑا جنہیں انڈیا الائنس کے امیدواروں کے طور پر میدان میں اتارا گیا تھا۔ اس پس منظر میں ہم اس پارٹی کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں اتحاد کے لیے کیسے بات کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی ڈی پی 1999 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی این سی کی اہم سیاسی مخالف تھی اور اسی پارٹی نے این سی کو پچھلے 25 برسوں میں دو بار اقتدار سے باہر کیا۔ ہم اپنے اہم مخالف کو دوبارہ منظم کرنے میں کیوں مدد کریں جو اب 2019 کے بعد زندہ رہنے کے لئے جد و جہد کر رہا ہے۔ لہذا، کانگریس-این سی مذاکرات کے دوران ہمارے اہم مخالف کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد زیر بحث ہی نہیں تھا۔‘‘

جب این سی اور کانگریس اتحاد کے لیے بات چیت کر رہے تھے، پی ڈی پی پہلی پارٹی تھی جس نے اسمبلی حلقوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا۔ اب تک پی ڈی پی نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے لیے 31 حلقوں کے انچارجز کا اعلان کیا ہے۔ ان 31 میں سے صرف 14 پی ڈی پی میں جانے پہچانے چہرے ہیں جبکہ باقی 17 سبھی نئے چہرے ہیں جو الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ تاہم، اس بغاوت کے درمیان پارٹی کے لیے یہ بات خوش آئند ہے کہ اس کے کئی پرانے رہنما ٹکٹ کے لیے دوبارہ پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔

ان اعلانات نے پارٹی میں ایک بڑی بغاوت کو جنم دیا کیونکہ پارٹی کے چھ نمایاں چہروں نے غصے میں پارٹی چھوڑ دی۔ ان میں سے وچی سے سابق رکن اسمبلی اعجاز میر، ڈی ڈی سی رکن اور ترجمان ڈاکٹر ہربخش سنگھ اور پی ڈی پی کے چیف ترجمان سہیل بخاری شامل ہیں جنہیں ان وفاداروں میں جانا جاتا تھا جو 5 اگست 2019 کے بعد محبوبہ مفتی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے جبکہ پارٹی کے 40 اہم لیڈران اور سینکڑوں کارکنان نے پارٹی کو خیر باد کہا اور اپنی پارٹی بنائی، جسکی قیادت محبوبہ کے ایک سابق وزیر اور دولتمند تاجر الطاف بخاری کر رہے ہیں۔

پانچ اگست کے بعد اس کے 40 رہنماؤں کے اخراج اور تازہ بغاوت کے باوجود، پی ڈی پی کے سابق وزیر نعیم اختر کو امید ہے کہ پی ڈی پی متعدد سیٹیں جیت کر نئی، بے اختیار اسمبلی میں داخل ہوگی۔ نعیم اختر، جو سابق حکومت میں وزیر تعلیم رہ چکے ہیں، کے مطابق ’’پی ڈی پی اسمبلی میں لوگوں کے لیے ایک مضبوط آواز بن کر ابھرے گی، اس سے قطع نظر کہ پارٹی کے کتنے امیدوار کامیاب ہوجائیں گے، اسمبلی کی اخلاقی باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں رہے گی چاہے ہم حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔‘‘

سیاسی تجزیہ کاروں نے کہا کہ 2014 کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد اور لیڈروں اور کارکنوں کی وفاداری کی قدر نہ کرنے نے پی ڈی پی کو موجودہ سیاسی صورتحال میں سب سے کمزور پارٹی کے طور پر چھوڑ دیا ہے۔ سینئر صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کا کہنا ہے کہ ’’پی ڈی پی نے 2015 اور 2016 میں نظریاتی مخالف بی جے پی کے ساتھ متنازع گٹھ جوڑ کیا، اور پھر شہری ہلاکتوں اور پیلٹ گن کے استعمال کو جائز ٹھہرایا اور اس سیاسی خودکشی کے منفی اثرات کا خمیازہ پی ڈی پی آج بھی بھگت رہی ہے۔‘‘ گیلانی کے مطابق ’’محبوبہ مفتی کیلئے پارلیمانی انتخابات میں شکست فاش سے دوچار ہونے کے بعد پارٹی میں خطرے کی گھنٹی بجنی چاہیے تھی، لیکن یہ بدستور خوش فہمی کی شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیر کے موجودہ سیاسی منظر نامے میں پی ڈی پی اپنی کمزور ترین وکٹ پر ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی پی میں بغاوت، منڈیٹ نہ ملنے پر جنوبی کشمیر کے کئی لیڈر باغی - Revolt in PDP

گیلانی نے مزید کہا کہ انتخابی سرگرمیوں کے عین درمیان میں پارٹی کے اندر بغاوت اس کے لیے کسی زلزلے سے کم نہیں ہے جس کے آفٹر شاکس اسے 4 اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی کے دن محسوس ہوں گے۔

پارٹی سے لیڈروں اور کارکنوں کا انخلاء اور جیتنے کی اہلیت رکھنے والے کم و بیش 15 سابق ایم ایل ایز کی غیر موجودگی ایک سیاسی زلزلہ ہے جسے پی ڈی پی نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ وفاداری اور اخلاقیات کی قدر نہیں کرتی، بلکہ صرف قلیل مدتی سیاسی فائدہ دیکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اگر پی ڈی پی محض 8 اسمبلی حلقوں میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.