سرینگر(جموں و کشمیر):انجمن اوقاف جامع مسجد سرینگر کے بیان کے مطابق میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کی گھر میں نظر بندی خصوصاً جمعہ کے ایام میں ان کی مذہبی اور منصبی سرگرمیوں پر عائد پابندی کیخلاف جموں وکشمیر ہائیکورٹ نے دائر عرضی کے ضمن میں ریاستی انتظامیہ کو عرضی کے جواب میں اپنا جواب داخل کرنے کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ریاستی انتظامیہ کیلئے آخری موقعہ ہوگا کہ وہ عرضی گذار کے درخواست کے جواب میں اپنا موقف پیش کرے۔
بیان میں کہا گیا کہ عرضی گزار کے وکیل کی درخواست پر جب معاملہ عدالت میں اٹھایا گیا ،تو عدالت نے وکیل محسن قادر کو 2 فروری تک کا وقت دیا تھا تاکہ وہ طے شدہ تاریخ تک اپنا جواب داخل کرے جس پر وکیل نے ایک ہفتے کا وقت مانگا اور عدالت نے انصاف اور مفاد عامہ کے مفاد میں سرکاری وکیل کو ایک ہفتے کا وقت دیا اور یہ واضح کیا کہ یہ ان کے لئے جواب جمع کرنے کا آخری موقعہ ہوگا اور آخری فیصلے کیلئے 6 مارچ 2024 کی تاریخ مقرر کردی اور واضح کیا گیا کہ اگر جواب داخل نہیں کیا گیا تو آئندہ سماعت پر معاملہ نپٹایا جائیگا۔
اوقاف نے واضح کیا ہے کہ ستمبر 2023 میں جب میرواعظ کو چار سال سے زائد کی من مانی نظر بندی کے بعد رہا کیا گیا، تب سے آج تک انہیں صرف تین جمعہ تک ہی مرکزی جامع مسجد میں نماز پڑھنے اور خطبے دینے کی اجازت دی گئی حتیٰ کہ شب معراج کے اہم مذہی موقعہ پر بھی میرواعظ کو مرکزی جامع مسجد جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزید پڑھیں: ہائی کورٹ نے جموں و کشمیر انتظامیہ کو میرواعظ کی عرضی کا جواب دینے کیلئے آخری موقع دیا
بیان میں کہا گیا کہ جب بھی اوقاف نے جموں و کشمیر انتظامیہ کی اس رویے کے ضمن میں حکام سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کوئی معقول جواب دینے سے انکار کیا اور اب جبکہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ قریب آرہا ہے اور بحیثیت میرواعظ کشمیر میرواعظ کو متعدد مذہبی تقریبات اور اجتماعات میں وعظ و تبلیغ کا پروگرام طے شدہ ہے اور ایسے حالات میں میرواعظ کی ان اجتماعات میں شرکت کے ضمن میں حکومت کی جانب سے عائد کردہ مسلسل نظر بندی تشویشناک امر ہے۔