سرینگر: انستھیزیا یعنی بے ہوش کرنے والے ڈاکٹرز سرجری کے مریضوں کیلئے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔ اس حوالے سے لوگ بہت کم جانکاری رکھتے ہیں۔مریض اس معاملے میں کافی حساس دکھائی دیتے ہیں کہ ان کی سرجری ایک کامیاب سرجرن انجام دے، لیکن انستھیزیا تجربہ یافتہ ہے یا نہیں اس پر تیمارداروں اور مریضوں کا دھیان کم ہی جاتا ہے۔
انستھیزولوجسٹ کا ایک کامیاب سرجری کے پیچھے کتنا رول اہم ہوتا ہے۔انستھیزولوجسٹ کے بارے میں جانکاری رکھنا کتنا اہم اور کیا انستھیزیا ڈاکٹر کا کام صرف مریض کو بے ہوش ہی کرنا یا ذمہ داریاں اور بھی ہیں۔اس سب ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین جی ایم سی سرینگر میں شعبہ انستھیزیا، کریٹیکل کیئر اور پین منیجمنٹ کی پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈاکٹر رخسانہ نجیب سے خصوص گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی سرجری میں انستھیزیا ڈاکٹر کا رول بے حد اہم ہوتا ہے۔ کوئی بھی سرجری چھوٹی ہو یا بڑی بغیر انستھیزیا کے انجام نہیں دی جاسکتی ہے۔تبھی ایک کامیاب سرجری انجام پاتی ہے۔جب انستھزیا بہت طور دیا جائے۔ مریض کو سرجریری کے لیے بے ہوش کرنے کے بعد انستھیزولوجسٹ کو کئی چیزوں کا خاص دھیان رکھنا ہوتا ہے۔ جس میں مریض کو کسی قسم کا درد محسوس نہ ہو، مریض کو یہ محسوس نہ ہو کہ سرجری ہورہی،مریض کو نیند اچھی آنی چائیے،کسی بھی صورت میں وہ ہاتھ پیر نہیں ہلانا چائیے،جبکہ سرجری کے بعد بےہوشی سے مریض کو واپس معمول پر لاواپس بھی ایک انستھیزیا ڈاکٹر کا ہی کام ہے۔ ایسے میں سرجری کے دوران انستھیزولوجسٹ ایک پائلٹ کا رول ادا کرتا ہے۔
ڈاکٹر رخسانہ نجیب نے کہا کہ جس طرح مریض اپنی سرجری سے قبل یہ جانے میں کافی دلچسپی لیتا ہے کہ سرجری کرنے والا ڈاکٹر کون ہے اور خود کو مطمئین کرنے کے لیے مذکورہ ڈاکٹر سے مشورہ بھی کرتا۔ایسے میں ضروری ہے کہ انستھزیا دینے والے ڈاکٹر کے بارے میں بھی جاننا بے حد ضروری ہے۔البتہ اس حوالے سے لوگوں میں جانکاری بے حد کم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرجری سے قبل مریض کا چیک اپ او پی ڈی میں کیا جاتا ہے پھر آئی پی ڈی میں انستھیزیا دینے کے لیے انہیں تیار کیا جاتا ہے اور بعد میں تھیٹر میں آپریشن سے پہلے سرجری کی نوعیت اور مریض کے وزن کے حساب سے ہی بے ہوشی کی دوائی اور دوائی کی مقدار کا تعین کیا جاتا ہے۔جبکہ اس دوران مانیٹر کے ذریعے مریض پر باریکی سے نظر رکھی جاتی ہے، تاکہ آپریش کامیابی سے انجام دیا جاسکے۔
ڈاکٹر رخسانہ نجیب نے بات چیت کے دوران کہا کہ جی ایم سی سرینگر سے منسلک سبھی تھیٹرز جدید آلات سے لیس ہیں، وہیں جدید قسم کی ادویات بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے مریض کو انستھیزیا دینا آسان ہوگیا اور مریض کو بھی کسی طرح کی پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں: ایمس نے معجزاتی سرجری کرکے تاریخ رقم کی
انہوں نے کہا کہ یوں تو انستھزیا ڈاکٹر کو ہر ایک چھوٹی بڑی سرجری میں الٹ رہنا پڑتا ہے، لیکن کینسر سرجریز میں زیادہ ہی حساس رہنا ہوتا ہے،کیونکہ ان سرجریز میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر رخسانہ نے کہا کہ جی ایم سی سرینگر کا شعبہ انستھیزیا منسلک اہسپتالوں میں سرجریز کے دوران انستھیزیا کا کام انجام دیتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 180 سے 200 جراحیاں انجام دی جاتی ہیں جس میں کامیابی کے ساتھ انجام دینے میں شعبہ انستھیزیا اور کریٹیکل کیئر کا بڑا اور اہم رول رہتا ہے۔