ریاض: امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ریاض میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ابھی تک اسرائیل کے پاس کوئی ایسا منصوبہ نہیں دیکھا ہے جس سے ہمیں یہ یقین ہو کہ شہریوں کو مؤثر طریقے سے تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
بلنکن نے اسرائیل کی غزہ میں پچھلے تقریبا سات ماہ سے جاری جنگ میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی ہر طرح کی مدد کیے جانے کے باوجود کہا ہے سن 1948 کے بعد یہ ایک بد ترین بحران ہے تاہم انہوں نے یہ بتایا ہے کہ امریکہ غزہ میں جاری اس جنگی بحران کو غزہ سے باہر پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس اسرائیل کی طرف سے غیر معمولی طور پر فراخدلانہ تجویز رکھتا ہے تاکہ خطے میں جنگ بندی ہو سکے۔ امید ہے کہ وہ درست فیصلہ کریں گے اس تناظر میں مصری میزبانی میں مذاکرات سے بڑی توقعات ہیں جبکہ ان مذاکرات میں عسکریت پسند گروپ بھِی جنگ بندی کے معاہدے کے لیے غور کریں گے۔
انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ امریکہ اسرائیل کی پوری حمایت کرتا ہے تاکہ جو کچھ سات اکتوبر کو ہوا وہ دوبارہ نہ ہو سکے۔ امریکی وزیر خارجہ نے حماس کے لیے شرائط پیش کرنے کے انداز میں کہا کہ اگر حماس شہریوں کو ڈھال نہ بنائے، اپنے ہتھیار پھینک دے، یرغمالی واپس کر دے اور شکست مان لے تو کسی کے لیے کوئی مصیبت نہ ہوگی ۔
بلنکن نے مزید کہا کہ غزہ میں خوفناک انسانی بحران پر ہماری توجہ ہے جبکہ امریکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے بھی پرعزم ہے۔ وہیں دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے پر پہنچنے کی صورت میں بھی جنوبی ضلع رفح پر حملہ کرے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کئی مہینوں سے اسرائیل کے اہم اتحادی امریکا کی طرف سے عوامی دباؤ کے باوجود رفح پر حملہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی امداد کے اداروں نے بار ہا خبردار کیا ہے کہ رفح پر حملہ تباہ کن ہوگا کیوں کہ وہاں دس لاکھ سے زائد بے گھر فلسطینی پناہ گزین مقیم ہیں۔
یہ بھی خبر گردش کر رہی ہے کہ امریکی وکلاء نے صدر جو بائیڈن سے اسرائیل کی فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں صدارتی انتظامیہ کے تقریباً 20 وکلاء سمیت 90 سے زائد وکلاء کا ایک گروپ صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی کارروائیوں کی وجہ سے اس کی فوجی امداد بند کر دیں۔ وکلاء کے گروپ کا خیال ہے کہ یہ امریکی اور بین الاقوامی انسانی قانون کے خلاف ہے۔
پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق وکلاء کا استدلال ہے کہ اسرائیل نے امریکی ہتھیاروں کے برآمدی کنٹرول کے قوانین کے ساتھ ساتھ جنیوا کنونشنز کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ مزید برآں، وہ امریکی محکمہ انصاف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرے جو امریکی شہریوں نے اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دیتے ہوئے کیے ہیں۔