خان یونس، غزہ: اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے لیے خان یونس سے بڑے پیمانے پر انخلاء کے احکامات جاری کیے ہیں۔ خان یونس سے جبراً نقل مکانی کے لیے مجبور ککیے جانے کا مطلب ہے کہ اب صیہونی فوج غزہ کی پٹی کے دوسرے بڑے شہر پر ایک نیا زمینی حملہ شروع کرنے جا رہی ہے۔ جنگ کے شروعاتی مہینوں میں خان یونس کا بیشتر حصہ پہلے ہی کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اسرائیل کو شک ہے کہ حماس کے جنگجو خان یونس میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔ تباہ شدہ خان یونس میں رفح میں اسرائیلی کارروائیوں سے بچنے کے لیے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد خان یونس میں پناہ لینے کے لیے مجبور ہو گئی تھی۔
خان یونس سے انخلاء کے حکم میں خان یونس کے مشرقی نصف حصے اور غزہ کی پٹی کے جنوب مشرقی کونے کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کیا گیا تھا۔ قبل ازیں، فوج نے کہا تھا کہ غزہ سے راکٹوں کا ایک بیراج خان یونس سے فائر کیا گیا تھا۔
جیسے ہی رات ہوئی، ہزاروں فلسطینی ندیوں کے بہاو کی طرح خان یونس سے نکل پڑے۔ ان میں سے کئی فلسطینی خاندان ایسے بھی ہیں جن کے پاس سواری کا انتظام تک نہیں ہے۔ معصوم بچوں کو ساتھ لے کر خواتین سفر کرتی نظر آئیں۔
اسرائیل نے خان یونس سے ساحلی علاقے مواسی کی طرف جانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ مواسی کو اسرائیلی فوج نے ایک محفوظ زون کے طور پر نامزد کیا ہے یہ علاقہ پہلے ہی سے پرہجوم اور غیر صحت مند خیموں سے بھرا پڑا ہے۔
حکم نامے میں تجویز کیا گیا ہے کہ خان یونس پر ایک نیا حملہ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی افواج نے اس سال کے شروع میں خان یونس میں ہفتوں تک حملے کیے اور حماس بٹالین کو تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن دوسرے مقامات پر جہاں فوج نے اسی طرح کے دعوے کیے ہیں، نئے چھاپوں نے حماس کی صلاحیتوں کو واضح کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے، فوج نے شمالی غزہ کے ضلع شجائیہ سے انخلاء کا حکم دیا تھا، اور اس کے بعد سے یہاں شدید جنگ جاری ہے۔
نتن یاہو نے پیر کو دعویٰ کیا کہ فوج حماس کے عسکری ونگ کو ختم کرنے کی طرف پیش رفت کر رہی ہے۔
خان یونس کے علاقے میں مزید جنگ سے فلسطینیوں کے لیے انتہائی ضروری پینے کے پانی تک رسائی کو مزید روک سکتی ہے۔ انخلاء کے علاقے میں پانی کی ایک لائن شامل ہے جسے اسرائیل نے جنگ کے اوائل میں پٹی میں پانی کی کٹوتی پر تنقید کے بعد نصب کیا تھا۔
اس کے علاوہ اس زون میں کریم شالوم کراسنگ کے آس پاس کا علاقہ ہے، جو جنوبی غزہ کے لیے اہم امدادی گزرگاہ ہے، اور اس علاقے کے اندر ایک امدادی راستہ ہے جس کی اسرائیل خود حفاظت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی میں سے زیادہ تر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں، جن میں سے بہت سے کئی بار بے گھر ہوئے ہیں۔ اسرائیلی پابندیوں، لڑائی اور امن عامہ کی خرابی نے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے غزہ میں وسیع پیمانے پر بھوک اور قحط کا خطرہ ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ انخلاء کا نیا حکم ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ غزہ میں فلسطینی شہریوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے"۔ انہوں نے ایک بیان میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا، "یہ اس مہلک سرکلر تحریک کا ایک اور پڑاؤ ہے جس سے غزہ کی آبادی کو مستقل طور پر گزرنا پڑتا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: