ETV Bharat / international

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ ونگ پر سے پابندی ہٹا دی - Bangladesh Jamaat e Islami

author img

By PTI

Published : Aug 28, 2024, 5:45 PM IST

محمد یونس کی سربراہی والی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے جماعت اسلامی پر سے پابندی ہٹا لی ہے۔ اس کے علاوہ عبوری حکومت نے اس کے طلبہ ونگ اسلامی چھاترا شبیر پر سے بھی پابندی ہٹا دی ہے۔ جماعت اسلامی پر 2013 میں انتخابات لڑنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

بنگلہ دیش
بنگلہ دیش (File Photo: AP)

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بدھ کے روز ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت، جماعت اسلامی اور اس کی طلباء ونگ اسلامی چھاترا شبیر پر سے پابندی ہٹا دی ہے۔ یہ پابندی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکمرانی کے آخری دنوں میں لگائی گئی تھی۔

اس سے متعلق حکومت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ گزٹ نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ، "چونکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں جماعت، شبیر اور اس کی فرنٹ تنظیموں کے ملوث ہونے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ہے اور چونکہ حکومت کا ماننا ہے کہ یہ تنظیمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔" لہٰذا، حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ- 2009 کے سیکشن-18 کے مطابق، پچھلے سرکلر کو منسوخ کر دیا ہے جس میں جماعت، شبیر اور اس کی فرنٹ تنظیموں پر پابندی عائد تھی۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لاکھوں حامی ہیں۔ جماعت اسلامی پر 2013 میں الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے ججوں نے جماعت اسلامی کے چارٹر کے ذریعے 170 ملین آبادی والے مسلم اکثریتی ملک کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی کا فیصلہ دیا تھا۔

جماعت کو 2014، 2018 اور اس سال جنوری میں دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ حالیہ انتخابات میں 76 سالہ معزول وزیراعظم شیخ حسینہ نے اپوزیشن کے بغیر وسیع پیمانے پر بدنام زمانہ انتخابات میں پانچویں مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔

اس کے بعد شیخ حسینہ کی سابقہ حکومت نے یکم اگست کو ایک انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت جماعت اسلامی پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔

یکم اگست کو، عوامی لیگ کی زیرقیادت سابقہ ​​حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009 کے تحت جماعت، شبیر اور اس سے وابستہ تمام تنظیموں کو سیاسی اداروں کے طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔

5 اگست کو شیخ حسینہ نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی عوامی لیگ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد ملک سے فرار ہو گئیں۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔

محمد یونس کی زیرقیادت عبوری حکومت سیاسی استحکام اور نظم و نسق کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ مظاہرین کے حملوں کے بعد پولیس فورسز اور دیگر سرکاری شعبوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ اس بحران نے ملک کے مشرقی اور دیگر علاقوں کو تباہ کر دیا ہے، جس میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے۔

سابقہ شیخ حسینہ حکومت نے حزب اختلاف کے ہزاروں رہنماؤں اور کارکنوں کو جنوری کے انتخابات سے قبل گرفتار کر لیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اس پر اپوزیشن کو دبانے کے لیے سکیورٹی فورسز اور عدالتوں کا استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا جس کی انھوں نے تردید کی تھی۔

جماعت اسلامی کی بنیاد برطانوی نوآبادیاتی دور میں 1941 میں ایک اسلامی اسکالر نے رکھی تھی اور 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تشکیل دینے کے خلاف مہم چلائی تھی۔

جماعت اسلامی بھارت کے ساتھ مستحکم تعلقات کی خواہاں:

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت ہندوستان کے ساتھ ہم آہنگی اور مستحکم تعلقات کی خواہاں ہے لیکن انہوں نے زور دے کر کہا کہ نئی دہلی کو پڑوس میں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دوطرفہ تعلقات ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے متحمل نہیں ہوتے۔

شفیق الرحمان بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی جماعت ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی تعلقات کی حمایت کرتی ہے لیکن یہ بھی مانتی ہے کہ بنگلہ دیش کو امریکہ، چین جیسے ممالک کے ساتھ مضبوط اور متوازن تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں۔ 65 سالہ رحمان نے دعویٰ کیا کہ نئی دہلی کا جماعت اسلامی کو بھارت مخالف تصور کرنا غلط ہے، انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "جماعت اسلامی کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تاثر ہے. ہم بنگلہ دیش کے حامی ہیں اور صرف اور صرف بنگلہ دیش کے مفادات کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں" انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی نے مشورہ دیا کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ بدامنی کی وجہ سے مستعفی ہونے کے بعد بھارت فرار نہ ہوتیں تو بہتر ہوتا۔ شفیق الرحمان نے قانون کا سامنا کرنے کے لیے شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش واپسی کی وکالت کی۔

رحمان نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جب بھی انتخابات ہوں گے جماعت اس میں حصہ لے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ، ہم سمجھتے ہیں کہ عبوری حکومت کو وقت دیا جانا چاہیے لیکن یہ غیر معینہ مدت تک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مناسب وقت پر نئے انتخابات کے وقت پر اپنی پوزیشن واضح کریں گے۔ لیکن جب بھی انتخابات ہوں گے، ہم حصہ لیں گے،‘‘

یہ بھی پڑھیں:

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بدھ کے روز ملک کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت، جماعت اسلامی اور اس کی طلباء ونگ اسلامی چھاترا شبیر پر سے پابندی ہٹا دی ہے۔ یہ پابندی معزول وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکمرانی کے آخری دنوں میں لگائی گئی تھی۔

اس سے متعلق حکومت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ گزٹ نوٹیفکیشن میں لکھا گیا ہے کہ، "چونکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں جماعت، شبیر اور اس کی فرنٹ تنظیموں کے ملوث ہونے کا کوئی خاص ثبوت نہیں ہے اور چونکہ حکومت کا ماننا ہے کہ یہ تنظیمیں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں۔" لہٰذا، حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ- 2009 کے سیکشن-18 کے مطابق، پچھلے سرکلر کو منسوخ کر دیا ہے جس میں جماعت، شبیر اور اس کی فرنٹ تنظیموں پر پابندی عائد تھی۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ فیصلہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لاکھوں حامی ہیں۔ جماعت اسلامی پر 2013 میں الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ ہائی کورٹ کے ججوں نے جماعت اسلامی کے چارٹر کے ذریعے 170 ملین آبادی والے مسلم اکثریتی ملک کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی کا فیصلہ دیا تھا۔

جماعت کو 2014، 2018 اور اس سال جنوری میں دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ حالیہ انتخابات میں 76 سالہ معزول وزیراعظم شیخ حسینہ نے اپوزیشن کے بغیر وسیع پیمانے پر بدنام زمانہ انتخابات میں پانچویں مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔

اس کے بعد شیخ حسینہ کی سابقہ حکومت نے یکم اگست کو ایک انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت جماعت اسلامی پر مکمل پابندی لگا دی تھی۔

یکم اگست کو، عوامی لیگ کی زیرقیادت سابقہ ​​حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2009 کے تحت جماعت، شبیر اور اس سے وابستہ تمام تنظیموں کو سیاسی اداروں کے طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔

5 اگست کو شیخ حسینہ نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی عوامی لیگ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد ملک سے فرار ہو گئیں۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے۔

محمد یونس کی زیرقیادت عبوری حکومت سیاسی استحکام اور نظم و نسق کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ مظاہرین کے حملوں کے بعد پولیس فورسز اور دیگر سرکاری شعبوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ اس بحران نے ملک کے مشرقی اور دیگر علاقوں کو تباہ کر دیا ہے، جس میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہوئے۔

سابقہ شیخ حسینہ حکومت نے حزب اختلاف کے ہزاروں رہنماؤں اور کارکنوں کو جنوری کے انتخابات سے قبل گرفتار کر لیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اس پر اپوزیشن کو دبانے کے لیے سکیورٹی فورسز اور عدالتوں کا استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا جس کی انھوں نے تردید کی تھی۔

جماعت اسلامی کی بنیاد برطانوی نوآبادیاتی دور میں 1941 میں ایک اسلامی اسکالر نے رکھی تھی اور 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تشکیل دینے کے خلاف مہم چلائی تھی۔

جماعت اسلامی بھارت کے ساتھ مستحکم تعلقات کی خواہاں:

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کے سربراہ شفیق الرحمان نے کہا ہے کہ ان کی جماعت ہندوستان کے ساتھ ہم آہنگی اور مستحکم تعلقات کی خواہاں ہے لیکن انہوں نے زور دے کر کہا کہ نئی دہلی کو پڑوس میں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دوطرفہ تعلقات ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے متحمل نہیں ہوتے۔

شفیق الرحمان بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی جماعت ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی تعلقات کی حمایت کرتی ہے لیکن یہ بھی مانتی ہے کہ بنگلہ دیش کو امریکہ، چین جیسے ممالک کے ساتھ مضبوط اور متوازن تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں۔ 65 سالہ رحمان نے دعویٰ کیا کہ نئی دہلی کا جماعت اسلامی کو بھارت مخالف تصور کرنا غلط ہے، انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "جماعت اسلامی کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ایک غلط تاثر ہے. ہم بنگلہ دیش کے حامی ہیں اور صرف اور صرف بنگلہ دیش کے مفادات کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں" انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس تاثر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی نے مشورہ دیا کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ بدامنی کی وجہ سے مستعفی ہونے کے بعد بھارت فرار نہ ہوتیں تو بہتر ہوتا۔ شفیق الرحمان نے قانون کا سامنا کرنے کے لیے شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش واپسی کی وکالت کی۔

رحمان نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جب بھی انتخابات ہوں گے جماعت اس میں حصہ لے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ، ہم سمجھتے ہیں کہ عبوری حکومت کو وقت دیا جانا چاہیے لیکن یہ غیر معینہ مدت تک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مناسب وقت پر نئے انتخابات کے وقت پر اپنی پوزیشن واضح کریں گے۔ لیکن جب بھی انتخابات ہوں گے، ہم حصہ لیں گے،‘‘

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.