یروشلم: اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک رکن نے حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے ملک کی حکمت عملی پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صرف جنگ بندی ہی انہیں رہا کرا سکتی ہے، کیونکہ وزیر اعظم نے امریکہ کی جانب سے جارحانہ کارروائی کو کم کرنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ سابق آرمی چیف، گیڈی آئزن کوٹ کے جنگ کو چوتھے مہینے میں ڈھکیلنے سے متعلق تبصرے اسرائیل کے اعلیٰ حکام کے درمیان اختلاف کی تازہ ترین علامت ہے۔ آئزن کوٹ نے کہا کہ یہ دعویٰ کہ درجنوں یرغمالیوں کو جنگ بندی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے آزاد کیا جا سکتا ہے، یہ "فریب" پھیلانے کے مترادف ہے۔ کوٹ کی یہ سیدھے طور پر جنگی کابینہ کے سربراہ وزیر اعظم نیتن یاہو پر تنقید ہے جو جنگ جاری رکھنے سے یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بتا رہے ہیں۔
آئزن کوٹ کے بیانات اس وقت سامنے آئے جب یرغمالیوں کے کچھ رشتہ داروں نے اپنے احتجاج میں شدت پیدا کر دی ہے۔ یہ شدت حکومت کی جانب سے بقیہ قیدیوں کی رہائی کے لیے کسی معاہدے کی طرف پیش رفت نہ ہونے پر مایوسی کی علامت ہے۔ سات اکتوبر سے حماس کے قیدی 28 سالہ ایڈان کی ماں ایلی شتیوی جمعہ کی رات سے نتن یاہو کی نجی رہائش گاہ کے باہر بھوک ہڑتال پر ہیں۔ اس احتجاج میں سینکڑوں لوگ شتیوی کا ساتھ دے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری معاہدے کا مطالبہ کرنے کے لیے تل ابیب کی ایک بڑی شاہراہ کو بند کرتے ہوئے مظاہرہ کیا گیا جہاں اسرائیلی پولیس نے مظاہرین سے ہاتھا پائی کی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق پولیس نے سات مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ حماس نے واضح کر دیا ہے کہ جب تک اسرائیل غزہ میں مکمل جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کرتا، اس وقت تک یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ حماس نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اگر اسرائیل جنگ سے یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن سمجھتا ہے تو وہ یرغمالیوں کو زندہ حاصل نہیں کر پائے گا۔