دوحہ، قطر: ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں نے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے حماس کے مقتول رہنما اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ادا کرنے کے لیے سوگوار جمعے کو دوحہ میں جمع ہوئے۔
ہنیہ اور ان کے محافظ کی جسد خاکی فلسطینی پرچم میں لپٹے ہوئے تھے۔ حماس کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے سینئر رہنماؤں نے ہنیہ کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔
اسماعیل ہنیہ کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھے جانے والے دو بڑے رہنما حماس کے سینئر عہدیدار خلیل الحیا، اور فلسطینی اسلامی جہاد کے سربراہ، اور حماس کے سابق سربراہ خالد مشعل موجود تھے۔
الحیا نے اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ، ہنیہ غزہ میں مارے جانے والے بچوں سے بہتر یا پیارا نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ، "ہمیں یقین ہے کہ اس کا خون فتح، وقار اور آزادی لائے گا،"۔
اسرائیل نے ابھی تک ہنیہ کے قتل میں کسی کردار کا دعویٰ یا تردید نہیں کی ہے لیکن حماس اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک جس میں مراکش سے ایران تک مظاہرین ہنیہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔
حماس کی دو سینئر ترین شخصیات کا قتل اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے لیے ایک فتح مانی جارہی ہے کیونکہ اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے تقریباً 10 ماہ بعد غزہ میں اسرائیلی افواج کا آپریشن آج بھی جاری ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو دیر گئے واشنگٹن کے باہر ایک فضائی اڈے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، "ہمارے پاس جنگ بندی کی بنیاد ہے۔ انہیں (نتن یاہو) کو اس پر آگے بڑھنا چاہیے۔"
لیکن ہنیہ جنگ بندی کی تمام بات چیت کے دوران حماس کے اہم مذاکرات کاروں میں شامل تھے اور ان کا قتل مہینوں کی بات چیت میں خلل ڈال سکتا ہے۔
ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان، اونکو کیسیلی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ، "آپ (اسرائیل) مذاکرات کاروں کو مار کر اور سفارت کاروں کو دھمکیاں دے کر امن حاصل نہیں کر سکتے،"۔
ادھر غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں۔ فلسطینی شہری دفاع کے مطابق، جمعرات کو غزہ شہر کے ضلع شجاعیہ میں بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے والے ایک اسکول پر حملے میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: