غزہ پٹی: فلسطینی حکام، طبی عملے اور امدادی کارکنوں کے مطابق اسرائیلی فورسز نے صرف آٹھ دنوں کے دوران غزہ میں پانچ الگ الگ اسکولوں پر حملہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان اسکولوں میں پناہ لینے والے درجنوں فلسطینی جاں بحق ہو گئے ہیں۔
اتوار کو ہونے والا تازہ ترین حملہ نصیرات پناہ گزین کیمپ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکول پر ہوا، جس میں کم از کم 17 افراد ہلاک اور 80 کے قریب زخمی ہوگئے۔ فلسطینی سول ڈیفنس نے بتایا کہ متاثرین میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسپتال میں جن زخمیوں اور لاشوں کو لایا گیا تھا وہ شدید طور پر جلی ہوئی تھیں، جس سے پتا چل رہا ہے کہ ان پر جلانے والے بموں کا استعمال کیا گیا ہے۔
اس سے قبل 9 جولائی کو خان یونس کے العودہ اسکول پر حملے کیے گئے، جس میں کم از کم 29 افراد ہلاک ہوئے۔ اس سے دو روز قبل غزہ شہر میں چرچ کے زیر انتظام ہولی فیملی اسکول پر حملہ کیا گیا جس میں چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
غزہ کے اسکولوں کے متعلق اسرائیل کا خیال ہے کہ اس مقام سے حماس کو مضبوط بنایا جارہا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی جنگجوؤں پر فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام لگانے کے بعد متعدد بار شہری عمارتوں پر بھی حملے کیے ہیں لیکن اس نے اپنے دعووں کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
کئی بین الاقوامی اداروں نے اسرائیل پر غزہ میں شہریوں کے خلاف طاقت کے غیر متناسب استعمال کا الزام لگایا ہے۔ نو مہینوں کی مسلسل بمباری میں اب تک 38,600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
ہفتہ کے روز اسرائیل نے المواسی کے علاقے پر حملہ کیا، جسے محفوظ زون قرار دیا گیا تھا، جس میں کم از کم 90 افراد ہلاک اور 300 دیگر زخمی ہوئے۔
7 اکتوبر کو جنگ شروع کرنے کے بعد سے، اسرائیل نے غزہ میں 400 سے زیادہ اسکولوں کو نشانہ بنایا ہے۔ جو جنگ زدہ علاقوں میں پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ اسکول پر حملے کے بعد برطانیہ میں فلسطینی سفیر حسام زوملوٹ نے کہا کہ غزہ میں ہر روز قتل عام ہو رہا ہے۔ یہ اسرائیل کے استثنیٰ اور عالمی عدم توجہی کا نتیجہ ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (او ایچ سی ایچ آر) کی جون کی ایک رپورٹ میں پتا چلا ہے کہ اسکولوں سمیت سویلین انفراسٹرکچر پر اسرائیل کے بار بار حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی معلوم ہوتے ہیں۔