تل ابیب: غزہ میں مزید چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں ملنے کے بعد اتوار کی رات سے اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں اسرائیلی سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے باقی بچے ہوئے یرغمالیوں کی واپسی کے لیے جلد سے جلد حماس کے ساتھ جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا۔ نیتن یاہو حکومت کے جاری اس مظاہرے کی متعدد تنظیموں اور یونین نے حمایت کرتے ہوئے اپنی خدمات ایک دن کے لیے مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین، ہسٹادرٹ نے پیر کے لیے عام ہڑتال کی کال دے کر حکومت پر دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس ٹریڈ یونین نے بینکنگ، صحت اور ملک کے مرکزی ہوائی اڈے سمیت معیشت کے بڑے شعبوں کو وقتی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ حکومت کو جنگ بندی معاہدے کے لیے مجبور کیا جا سکے۔
تل ابیب میں جاری احتجاج میں شامل مظاہرین "ابھی! ابھی!" یعنی فوری جنگ بندی کے لیے نعرے لگا رہے ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ باقی قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لیے حماس کے ساتھ جلد از جلد جنگ بندی کی جائے۔
غزہ میں 11 مہینوں سے جاری جنگ کے دوران اسرائیل میں یہ اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ ہے۔ مظاہرین کے مطابق ممکنہ طور پر وہ اب ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکے ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کی پالیسوں اور عوام کے بیچ بڑھتی کھائی کی وجہ سے اسرائیل فی الوقت تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے۔ حالانکہ اسرائیلی سماج میں یہ تقسیم عدالتی اصلاحات سمیت دیگر معاملات پر پہلے سے چلی آ رہی تھی لیکن غزہ جنگ نے اس تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
جنگ بندی کے مذاکرات مہینوں سے جاری ہیں۔ بہت سے لوگ معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی کے لیے نیتن یاہو کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اتوار کی رات یروشلم میں نیتن یاہو اور وزارت دفاع کے دفتر کے باہر لوگ لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو گئے۔
وہیں تل ابیب میں یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے علامتی تابوتوں کے ساتھ مارچ کیا۔ اس دوران تل ابیب کے ایک رہائشی شلومیت ہاکوہن نے کہا کہ "ہم واقعی سوچتے ہیں کہ حکومت یہ فیصلے اپنی بقا کے لیے کر رہی ہے نہ کہ یرغمالیوں کی زندگیوں کے لیے، اور ہمیں انہیں بتانے کی ضرورت ہے، رک جاؤ!"۔
واضح رہے کہ غزہ سے چھ اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں جن میں ایک اسرائیلی نژاد امریکی بھی شامل ہے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ تمام چھ یرغمالیوں کو اسرائیلی فورسز کے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جب کہ حماس کا دعویٰ ہے کہ یہ یرغمالی اسرائیلی فوج کی بمباری میں ہلاک ہوئے۔ قابل ذکر ہے کہ حماس نے اس سے قبل اپنے جنگجوؤں کو ہدایت کی تھی کہ اگر اسرائیلی فوج کسی معاہدے کے بغیر یرغمالیوں کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہے تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مارے گئے سبھی یرغمالیوں کو جولائی میں ہوئی جنگ بندی کی تجویز کے پہلے مرحلے میں رہا کیا جانا تھا۔
چھ یرغمالیوں کی ہلاکت سے پورے اسرائیل میں میں غصہ اور مایوسی پھیل گئی۔ ایک احتجاجی نے اسرائیلی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یہ جان کر کہ انہیں بچایا جا سکتا تھا، اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔ "