واشنگٹن: امریکی قومی سلامتی کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ہفتے کے روز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قتل کی کوشش سے چند ہفتے قبل ہی امریکا کو ایران کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی سازش کے بارے میں خفیہ معلومات ملی تھیں۔ اس کے بعد ٹرمپ کی سکیورٹی بھی بڑھا دی گئی۔ تاہم حکام نے یہ بھی کہا کہ ایرانی سازش اور ہفتے کے روز ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والے 20 سالہ شخص کے درمیان کوئی تعلق معلوم نہیں ہوا ہے۔
قومی سلامتی کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس سروسز اور ٹرمپ کی الیکشن ٹیم کو ایرانی خطرے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ یو ایس سیکرٹ سروس کے ترجمان نے کہا کہ وہ اور دیگر ایجنسیاں مسلسل نئے ممکنہ خطرات کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی ہیں اور ضرورت کے مطابق وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے کارروائی کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا، 'ہم کسی مخصوص خطرے پر تبصرہ نہیں کر سکتے، سیکرٹ سروس دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور اس کے مطابق جواب دیتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ امریکی سکیورٹی اہلکار برسوں سے ٹرمپ انتظامیہ کے سابق اہلکاروں کے خلاف ایرانی دھمکیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ اور ان کے سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو 2020 میں ڈرون حملے کے بعد تہران کی طرف سے خطرات کا سامنا ہے۔ کیونکہ اس حملے میں عراق میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی جاں بحق ہو گئے تھے۔
تہران کی تردید
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے امریکی خفیہ رپورٹ کو 'بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی' قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ ایران کی نظر میں ٹرمپ ایک مجرم ہیں جن کے خلاف قانونی عدالت میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے اور اسے سزا دی جانی چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ہفتے کے روز ایک انتخابی ریلی میں جان لیو حملہ کیا گیا لیکن وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔ ایک گولی ان کے دائیں کان کے اوپری حصے پر لگی۔ فائرنگ سے ریلی میں شریک ایک شخص جاں بحق جب کہ دو افراد شدید زخمی ہوگئے۔
بعد میں فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے حملہ آور کی شناخت پینسلوینیا کے بیتھل پارک کے 20 سالہ تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی اور جوابی کاروائی میں اسے بھی مار دیا گیا۔ کیس کی تفتیش ابھی جاری ہے۔