دیر البلاح، غزہ: وسطی غزہ کے ایک اسپتال کا دورہ کرنے والی ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی ٹیم بدترین حالات کے لیے تیار تھی۔ لیکن اسرائیل کی حماس کے خلاف جنگ کا جو بھیانک اثر فلسطینی بچوں پر پڑ رہا ہے اسے دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔
ایک چھوٹا بچہ اسرائیلی حملے میں دماغی چوٹ سے مر گیا جس سے اس کی کھوپڑی ٹوٹ گئی۔ اس کی چچا زاد بہن، ایک شیر خوار، اب بھی اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کے چہرے کا کچھ حصہ جنگ نے اس سے چھین لیا ہے۔
ایک 10 سالہ یتیم لڑکا درد سے چیخ رہا تھا اور اپنے والدین کو آواز دے رہا تھا، وہ یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ جنگ میں مارے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ اس کی بہن تھی، لیکن اس نے اسے نہیں پہچانا کیونکہ اس کی بہن کا جلنے کی وجہ سے تقریباً پورا جسم ڈھکا ہوا تھا۔
دیر البلاح قصبے کے الاقصیٰ شہداء اسپتال میں رات کے 10 گھنٹے کی شفٹ کے بعد، اردن سے تعلق رکھنے والی بچوں کی انتہائی نگہداشت کی ڈاکٹر تانیا حج حسن نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو یہ خوفناک مناظر کی جانکاری دی۔
حج حسن غزہ میں ڈاکٹروں کی اس ٹیم کا حصہ تھیں جس نے حال ہی میں وہاں دو ہفتے کا دورہ مکمل کیا تھا۔
حج حسن کے مطابق اسپتال کا عملہ طبی آلات کو برقرار رکھنے کے لیے اسپیئر پارٹس کی کمی سے جوجھ رہا ہے۔ الاقصیٰ شہداء میں بے ہوشی کی دوا بھی ختم ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرجری اور دیگر علاج اکثر درد کش ادویات کے بغیر کیے جاتے ہیں۔
حج حسن کا کہنا ہے کہ غزہ کے صحت کی دیکھ بھال کے بحران کو ختم کرنے کا واحد راستہ مستقل جنگ بندی ہے۔
تقریباً چھ ماہ کی جنگ کے بعد غزہ کا صحت کا شعبہ تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے تقریباً ایک درجن صرف جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ باقی یا تو بند ہو گئے ہیں یا بمشکل کام کر رہے ہیں۔
الاقصیٰ شہداء جیسے اسپتالوں کو محدود سامان اور عملے کے ساتھ مریضوں کی ایک بڑی تعداد کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ اس کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں اکثریت بچوں کی ہے، جو پٹیوں میں لپٹے ہوئے اور آکسیجن ماسک پہنے ہوئے ہیں۔
جنوری میں الاقصیٰ شہداء میں کام کرنے والے بین الاقوامی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم قریبی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری ہوئی تھی۔ لیکن اسرائیلی حملوں میں حالیہ اضافے کی وجہ سے، حج حسن اور اس کے ساتھی کارکنان اسپتال میں ہی رہے۔
غزہ میں اسپتال کا دورہ کرنے والی ٹیم کا حصہ رہے مصطفیٰ ابو قاسم نے کہا کہ وہ اسپتال میں بھیڑ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم مریضوں کو ڈھونڈتے ہیں تو وہ کمرے میں نہیں بلکہ راہداریوں میں بستر پر، گدے پر یا فرش پر کمبل پر ہوتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنگ سے پہلے اسپتال میں 160 بستروں کی گنجائش تھی۔ اب وہاں تقریباً 800 مریض ہیں۔ اس حال میں اسپتال کے 120 عملے کے ارکان میں سے بہت سے اب کام پر آنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہاں کے طبی عملے کو اپنے خاندانوں کے لیے کھانا تلاش کرنے اور ان کے لیے حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش میں غزہ میں دوسروں کی طرح روزانہ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ابو قاسم نے کہا کہ بہت سے لوگ اپنے بچوں کو قریب رکھنے کے لیے انھیں اپنے ساتھ اسپتال لاتے ہیں۔
جنگ کی وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہزاروں لوگ بھی اسپتال کے میدان میں رہ رہے ہیں، انھیں امید ہے کہ یہ محفوظ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اسپتالوں کو خصوصی تحفظات حاصل ہیں، لیکن اسرائیل نے حماس کے ذریعہ اسپتالوں کو کمانڈ سینٹرز کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بیشتر اسپتالوں کو تباہ کر دیا ہے۔ حالانکہ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق،7 اکتوبر سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 32,490 فلسطینی ہلاک اور تقریباً 75,000 زخمی ہوئے ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: