جکارتہ، انڈونیشیا: ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے منسلک سابق جنرل پرابوو سوبیانتو نے بدھ کو انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات میں فتح کا دعویٰ کیا ہے۔ دنیا کی تیسری سب سے بڑی جمہوریت میں پرابوو سوبیانتو کی جیت کے بعد ملک میں جمہوری اقدار سے وابستگی پر سوالات ضرور اٹھیں گے۔
72 سالہ وزیر دفاع پرابوو سوبیانتو نے اپنے آپ کو انتہائی مقبول موجودہ صدر جوکو ویدوڈو کے وارث کے طور پر پیش کیا تھا۔ غیر سرکاری نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے، سوبیانتو نے دارالحکومت جکارتہ میں ہزاروں حامیوں کے روبرو اپنی جیت کو تمام انڈونیشیائیوں کی فتح قرار دیا ہے۔
حالانکہ ابھی تک انتخابی عہدیداروں کی طرف سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا، اور صدارتی عہدے کی دوڑ میں شامل دو سابق صوبائی گورنروں نے بھی ابھی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔
سوبیانتو پر انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے دو دہائیوں تک امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ سوبیانتو آمریت کے ظالمانہ دور میں ایک فوجی جنرل تھا۔ اس نے تشدد اور گمشدگیوں سے منسلک یونٹ میں سپیشل فورس کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دیں ہیں۔ سوبیانتو الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
انڈونیشیا کی پولنگ ایجنسیوں کی طرف سے کئے گئے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سوبیانتو کے پاس 57 سے 59 فیصد ووٹ تھے۔ صدارتی دوڑ میں شامل دو سابق صوبائی گورنروں انیس باسویدان اور گنجر پرانوو نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام عائد کردیا ہے۔ مخالف امیدواروں انیس بسویدان نے 25 فیصد اور گانجر پرانوو نے 17 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی جاری ہے، انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان 20 مارچ تک متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: