ETV Bharat / health

پانی کی پلاسٹک کی بوتل استعمال کرنے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ - Risk of Type 2 Diabetes

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 12, 2024, 10:07 AM IST

ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں موجود کیمیکل ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ ایک جریدے میں شائع رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کی بوتلیں ذیابیطس کو بڑھانے والا کیمیکل خارج کرتی ہیں۔ پوری رپورٹ پڑھیں

پانی کی پلاسٹک کی بوتل استعمال کرنے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ
پانی کی پلاسٹک کی بوتل استعمال کرنے سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ (Getty Images)

پلاسٹک کی بوتل سے ذیابیطس: ایک طبی ویب سائٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں، بچوں کے دودھ پینے والے فیڈرز سمیت کھانے کی مختلف اشیا کی پیکنگ اور ادویات کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک سے ذیابیطس ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق پلاسٹک سے ایک کیمیل بسفینول اے (BPA) جسے بسفینول اے (bisphenol A ) بھی کہا جاتا خارج ہوتا ہے۔ اس کیمیکل کے اخراج سے ذیابیطس ہوسکتا ہے۔ بسفینول اے (بی پی اے) جسم کو انسولین کے لیے کم حساس بنا سکتا ہے، یہ ہارمون خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے والا ہارمون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ کیمیکل انسانی خون میں انسولین کی پیداوار کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس وجہ سے انسان ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔

کیلی فورنیا پولی ٹیکنک سٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے 40 صحت مند بالغوں کو یا تو پلیسبو یا تقریباً 50 مائیکرو گرام بی پی اے فی کلوگرام ان کے جسمانی وزن میں دے کر یہ مطالعہ کیا، جسے فی الحال EPA کے ذریعے محفوظ خوراک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 40 رضاکاروں میں 22 خواتین تھیں۔

ماہرین نے رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا، جس میں سے ایک گروپ کو پلاسٹک کی بوتلوں، فیڈرز اور کھانے کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک میں موجود کیمیکل سے تیار دوائی کھلائی گئی جبکہ دوسرے گروپ کو فرضی دوا دی گئی۔

ماضی میں کیے گئے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بسفینول اے انسانوں میں ہارمونز کے ساتھ گڑبڑ کر سکتا ہے، لیکن یہ پہلی تحقیق ہے جس میں براہ راست ظاہر کیا گیا ہے کہ بسفینول اے بالغوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔

ماہرین نے تحقیق سے قبل تمام رضاکاروں کے خون اور پیشاب کے ٹیسٹ کرائے اور ان میں شوگر کی سطح کو جانچ کر اسے ریکارڈ کیا گیا اور انہیں خوراکیں دینے کے بعد دوبارہ ان کے ٹیسٹ کیے گئے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ پلاسٹک کی بوتلیں، بچوں کو دودھ پلانے کے لیے استعمال ہونے والے فیڈرز، ادویات اور خوراک کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک سے خارج ہونے والے کیمیکل سے تیار ادویات کھانے والے افراد میں چار دن بعد ہی خون میں شوگر کی سطح بڑھ گئی اور ان کے ذیابیطس کے شکار ہونے کے امکانات ظاہر ہوگئے۔

ماہرین کے مطابق پلاسٹک سے خارج ہونے والے مذکورہ کیمیکل سے اگرچہ وزن نہیں بڑھتا، تاہم اس سے جسم میں انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، جس وجہ سے خون میں شوگر کا لیول بڑھتا ہے اور انسان ذیابیطس کا شکار ہوسکتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلیں زیادہ استعمال ہوتی ہیں کیونکہ وہ آسانی سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں لیکن اس پر جاری تحقیق یہ بتا رہی ہے کہ ان کے کیمیائی اجزا صحت کے لیے کتنے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

ایکو انوارمینٹل اینڈ ہیلتھ جریدے میں شائع ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دھوپ میں میں رکھی ہوئی پلاسٹک کی پانی کی بوتلیں نقصان دہ کیمیکل خارج کرتی ہیں۔ اس تحقیق میں سورج کی روشنی میں چھ قسم کی پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں کو ٹیسٹ کیا گیا اور اتار چڑھاؤ والے نامیاتی مرکبات کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ کچھ بوتلوں سے انتہائی زہریلے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جن میں کینسر پیدا کرنے والے مادے بھی شامل ہیں۔

یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ان نقصان دہ کیمیکلز کی نمائش کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں سخت قوانین کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

پلاسٹک کی بوتل سے ذیابیطس: ایک طبی ویب سائٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں، بچوں کے دودھ پینے والے فیڈرز سمیت کھانے کی مختلف اشیا کی پیکنگ اور ادویات کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک سے ذیابیطس ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق پلاسٹک سے ایک کیمیل بسفینول اے (BPA) جسے بسفینول اے (bisphenol A ) بھی کہا جاتا خارج ہوتا ہے۔ اس کیمیکل کے اخراج سے ذیابیطس ہوسکتا ہے۔ بسفینول اے (بی پی اے) جسم کو انسولین کے لیے کم حساس بنا سکتا ہے، یہ ہارمون خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول کرنے والا ہارمون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ کیمیکل انسانی خون میں انسولین کی پیداوار کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس وجہ سے انسان ذیابیطس کا شکار ہو سکتا ہے۔

کیلی فورنیا پولی ٹیکنک سٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے 40 صحت مند بالغوں کو یا تو پلیسبو یا تقریباً 50 مائیکرو گرام بی پی اے فی کلوگرام ان کے جسمانی وزن میں دے کر یہ مطالعہ کیا، جسے فی الحال EPA کے ذریعے محفوظ خوراک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 40 رضاکاروں میں 22 خواتین تھیں۔

ماہرین نے رضاکاروں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا، جس میں سے ایک گروپ کو پلاسٹک کی بوتلوں، فیڈرز اور کھانے کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک میں موجود کیمیکل سے تیار دوائی کھلائی گئی جبکہ دوسرے گروپ کو فرضی دوا دی گئی۔

ماضی میں کیے گئے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بسفینول اے انسانوں میں ہارمونز کے ساتھ گڑبڑ کر سکتا ہے، لیکن یہ پہلی تحقیق ہے جس میں براہ راست ظاہر کیا گیا ہے کہ بسفینول اے بالغوں میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔

ماہرین نے تحقیق سے قبل تمام رضاکاروں کے خون اور پیشاب کے ٹیسٹ کرائے اور ان میں شوگر کی سطح کو جانچ کر اسے ریکارڈ کیا گیا اور انہیں خوراکیں دینے کے بعد دوبارہ ان کے ٹیسٹ کیے گئے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ پلاسٹک کی بوتلیں، بچوں کو دودھ پلانے کے لیے استعمال ہونے والے فیڈرز، ادویات اور خوراک کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے پلاسٹک سے خارج ہونے والے کیمیکل سے تیار ادویات کھانے والے افراد میں چار دن بعد ہی خون میں شوگر کی سطح بڑھ گئی اور ان کے ذیابیطس کے شکار ہونے کے امکانات ظاہر ہوگئے۔

ماہرین کے مطابق پلاسٹک سے خارج ہونے والے مذکورہ کیمیکل سے اگرچہ وزن نہیں بڑھتا، تاہم اس سے جسم میں انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، جس وجہ سے خون میں شوگر کا لیول بڑھتا ہے اور انسان ذیابیطس کا شکار ہوسکتا ہے۔

پلاسٹک کی بوتلیں زیادہ استعمال ہوتی ہیں کیونکہ وہ آسانی سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں لیکن اس پر جاری تحقیق یہ بتا رہی ہے کہ ان کے کیمیائی اجزا صحت کے لیے کتنے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

ایکو انوارمینٹل اینڈ ہیلتھ جریدے میں شائع ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دھوپ میں میں رکھی ہوئی پلاسٹک کی پانی کی بوتلیں نقصان دہ کیمیکل خارج کرتی ہیں۔ اس تحقیق میں سورج کی روشنی میں چھ قسم کی پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں کو ٹیسٹ کیا گیا اور اتار چڑھاؤ والے نامیاتی مرکبات کا جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا کہ کچھ بوتلوں سے انتہائی زہریلے کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے جن میں کینسر پیدا کرنے والے مادے بھی شامل ہیں۔

یہ نتائج بتاتے ہیں کہ ان نقصان دہ کیمیکلز کی نمائش کو کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں سخت قوانین کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.