نئی دہلی: فلم کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان صرف ایک اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت تھی۔ منفرد اسلوب تھا، جو انہیں دیگر فن کاروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس انفرادیت کو انہوں نے تاحیات برقرار رکھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ فیروز خان نے اپنی آرزؤوں اور امنگوں کے ساتھ پروقار اور شاہانہ زندگی بسر کی اور ہندوستانی سنیما کو اپنی اداکاری اور فن کاری کا بیش بہا خزانہ عطا کیا۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری کی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں متعدد ایسے فن کار پیدا ہوئے، جنہوں نے پردۂ سیمیں پر اپنی فنی صلاحیتوں اور ہمہ جہت اداکاری کی بدولت فلم انڈسٹری میں وہ مقام حاصل کیا، جو انہیں مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ بلاشبہ فیروز خان بھی ایک ایسے ہی فن کار تھے، جنہوں نے اپنی ہمہ جہت اداکاری کی بدولت لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔ فلم انڈسٹری میں ان کی شناخت ایک اسٹائل آئی کون کے طور پر تھی۔ ان کی منفرد اداکاری اور شاہانہ انداز ہمیشہ لوگوں کے لئے باعث کشش رہا۔
یہ بہت اہم بات ہے کہ تاحیات انہوں نے اپنی آن بان اور شان قائم رکھی ۔گورے چٹے، قدآور افغانی نسل کے اس پٹھان نے اس کے لئے کبھی کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا۔ خواہ اس کے لئے انہیں کتنا بھی خسارہ برداشت کرنا پڑا ہو۔ وہ نہایت نفاست پسند انسان تھے۔ خوب صورت ملبوسات، قیمتی گاڑیوں، عمدہ نسل کے گھوڑوں سے انہیں بے پناہ لگاؤ تھا، جس کا دیدار ان کی ہر فلم میں کیا جاسکتا ہے۔ خان کا اداکاری کا اپنا انداز تھا۔ جس طرح آج کل سلمان خان اپنے سٹائل کے لیے مشہور ہیں اسی طرح کسی وقت فیروز خان جانے جاتے تھے۔
فیروز خان نے اپنے کیریئر کی ابتدا ثانوی درجے کی فلموں سے کی۔ 1960 میں انہوں نے ’دیدی‘ نامی فلم میں بطور معاون اداکار کام کیا۔ بعد ازاں کئی برسوں تک وہ بی اورسی گر یڈ فلموں میں کام کرتے رہے۔ لیکن یہ فیروز خان کی منزل نہیں تھی۔ انہوں نے اپنے اندر آگے بڑھنے کا حوصلہ اور لگن کو برقرار رکھا اور اپنی الگ شناخت کے لئے کوشاں رہے۔ 1965 میں ریلیز ہونے والی فلم ’اونچے لوگ‘ ان کے کیریئر کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا۔ پھر کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔ بعد ازاں انہوں نے سپرہٹ فلم ’آرزو‘ میں بطور معاون اداکار بہترین کام کرکے خوب شہرت کمائی اور اب انہیں اول درجے کی فلموں میں کام ملنے کا راستہ ہموار ہوگیا۔
سال 1969 میں فیروز خان کو ’آدمی اور انسان‘ میں بہترین اداکاری کے لئے فلم فئرک ایوارڈ سے نوازا گیا۔ حالانکہ اس وقت فیروز خان نے فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت تو قائم کرلی تھی لیکن انہیں فلموں میں لیڈ رول کے لئے بہت کم ہدایت کار و فلم ساز منتخب کرتے تھے۔ اس کا فیروز خان کو کہیں نہ کہیں قلق ضرور تھا، اس لئے انہوں نے اپنی مدد آپ کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ان کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوا۔
انہوں نے ایک نیا خواب دیکھنا شروع کیا یعنی ہدایت کاری اور فلم سازی کا۔ اور جلد ہی اس کی تعبیر بھی سامنے آگئی۔ انہوں نے خود کو اداکاری تک ہی محدود نہ رکھ کر فلم سازی اور ہدایت کاری کے میدان میں قدم رکھ دیا اور کامیاب بھی رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ اداکار سے زیادہ ہدایت کار اور فلم ساز تھے تو غلط نہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ذہن میں رکھ کر اسکرپٹ لکھی جاتی تھی اور وہ اپنی فلموں میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے تھے۔
سال 1975 میں انہوں نے ’اپرادھ‘ نامی فلم بنائی، جو زیادہ کامیاب تو نہ ہوسکی لیکن 1975 میں جب انہوں نے فلم ’دھرماتما‘ بنائی، تو وہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور ان کی شہرت و مقبولیت کا سبب بنی۔ اس فلم میں فیروز خان نے بطور ہدایت کار اور اداکار اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم میں افغانستان کے قدرتی مناظر کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ فیروز خاں کے آباء و اجدادکا تعلق افغانستان سے تھا۔ والدہ ایران سے تعلق رکھتی تھیں۔
بہرحال ’دھرماتما‘ فلم کو انہوں نے جس خوب صورت انداز میں پیش کیا، اسے ناظرین نے بے حد سراہا او رآج بھی اگر ٹی وی اور سنیماہالوں میں اس فلم کی نمائش کی جاتی ہے تو کثیر تعداد میں ناظرین اسے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ فنی کمالات سے بھرپو راس فلم کو ناقدین نے بے حد سراہا۔ فیروز خاں ایسے فن کار تھے، جو بیک وقت اداکار، ہدایت کار، فلم ساز، اسکرپٹ رائٹرا ور مدیرانہ صلاحیت کے حامل تھے۔ فن کاری کے مختلف شعبوں پر عبور رکھنے کے ساتھ ان کے اندر جدو جہد کی کمی نہ تھی۔
ایک اور فلم جو ان کے نام کے ساتھ جڑگئی ہے اور جس کا نام آتے ہی فیروز خان کا چہرہ سامنے آتا ہے، وہ ہے شہرہ آفاق فلم ’قربانی‘۔ 1980 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم اس قدرہٹ ثابت ہوئی کہ اس فلم کی ہدایت کاری کے بعد ان کا شمار صف اول کے ہدایت کاروں میں ہونے لگا۔ اس میں ایک نئی تکنیک سے متعارف کرایا گیا تھا۔ قربانی اولین بالی ووڈ فلم تھی، جس میں ہالی ووڈ کی طرز پر گلاس کا استعمال کیا گیا۔ اس فلم کو سپر ہٹ بنانے میں پاکستانی گلوکارہ نازیہ حسن کی آواز کا بھی بڑا رول تھا۔ انہوں نے اس فلم میں ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے، گاکر لوگوں کو حیرت انگیز مسرت پر مجبور کردیا تھا اور ہر خاص وعام کے لبوں پر یہ گانا مچلتا رہا۔
اس طرح دیکھا جائے تو نازیہ حسن کو انڈین فلم انڈسٹری میں متعارف کرانے والے فیروز خان ہی تھے۔ فیروز خان کی شہرۂ آفاق فلم قربانی کے ساتھ ایک دلچسپ داستان جڑی ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ اس فلم کے لئے انہوں نے اس وقت کے سپر اسٹار ونود کھنہ، زینت امان اور امجد خاں کو سائن کیا۔ چوں کہ اس وقت یہ اسٹار کافی پیسہ لیتے تھے اور فلم کے زیادہ تر منظر بیرون ملک میں فلمانے کے سبب اس کا بجٹ اوور ہوگیا۔حالات کے تقاضے کو مد نظر رکھ کر انہوں نے فلم کی قیمت بڑھادی۔ نتیجتاً تقسیم کاروں کاروں کی بھنوئیں تن گئیں اور فلم تقسیم کرنے سے کترانے لگے۔
درپیش حالات کے سبب انہوں نے ڈسٹری بیوٹروں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ خود تقسیم کار بننے کا فیصلہ کیا اور یہ فلم ایف کے انٹرنیشنل کے بینر تلے ریلیز کی گئی۔ اپنے وقار اور آن بان کو قائم رکھتے ہوئے انہوں نے اس فلم کے لئے نئی دہلی کے تاج مان سنگھ ہوٹل میں آفس کرایہ پر لیا اور یہیں سے فلم ریلیز کی۔ سنیما مالکان فلم کی بکنگ کے لئے تاج مان سنگھ ہوٹل آتے اور فلم بک کرتے۔ اس فلم نے 85 سے 99 فی صد تک تجارت کی۔ یوپی کے کئی سنیماگھروں یہ فلم دوہفتوں تک ہاؤس فلم چلی اور کئی سنیماگھروں میں سو دن تک چلی۔ اس سے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ فیروز خان کو زبردست آمدنی ہوئی ہوگی لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ وہ شاہانہ ٹھاٹ باٹ ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔
چار مہینے تک فیروز خان نے مذکورہ ہوٹل میں سکونت اختیار کی۔ ہوٹل کا کرایہ ‘اسٹاف کی تنخواہ‘ ناشتے اور دوپہر رات کے کھانے کا بل ادا کرنے کے بعد ان کے پاس محض گیارہ روپے بچے تھے۔ پھر بھی وہ دلبرداشتہ نہیں ہوئے اورفلم کی کامیابی کی خوشی میں اسٹاف کو زبردست پارٹی دی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فیروز خان کتنے پروقار اور شاہانہ زندگی بسر کرنے والے فرد تھے۔ وہ اپنی شرطوں پر جیتے تھے اور قواعد و ضوابط خود وضع کرتے تھے۔ لوگوں اچھی طرح یاد ہوگا کہ پاکستان میں ایک تقریب کے دوران انہوں نے مختارن مائی کا بھری محفل میں بوسہ لے لیا، جس کے سبب انہیں سرزمین پاکستان پر قدم رکھنا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
ان کی ایک اور فلم جو اداکاری، تکنیک، فوٹوگرافی اور ہرزاویہ سے بہترین فلم تھی، وہ تھی جاں باز۔اس پر بھی فیروز خان نے دل کھول کر پیسہ خرچ کیا۔ یہ فلم 1986 میں ریلیز ہوئی۔ بعدازاں 1988میں ’دیاوان‘ 1992 میں یلغار‘ 1998 میں پریم اگن 2003 میں جانشین اور 2005 میں ایک کھلاڑی ایک حسینہ بنائی۔ پریم اگن اور جانشین اور ایک حسینہ تھی میں انہوں نے اپنے بیٹے اداکار فردین خان کو متعارف کرایا۔
آخری عمرہی میں انہوں نے کامیڈی فلم 'ویلکم' میں کام کیا۔ یہ ان کی آخری فلم تھی اس کے بعد سے وہ مستقل بیمار رہنے لگے۔ ان کے آخری وقتوں میں ان کے بیٹے فردین خان برابر ان کے ساتھ رہے۔ اپنے والد کی تیمارداری کی وجہ سے فردین نے کوئی فلم سائن نہیں کی۔ فیرو خان کو فلمی صنعت میں ان کی کارکردگی کے لیے سن دو ہزار میں فلم فیئر نے لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
پردہ سیمیں اور ذاتی زندگی میں آن بان اور شان کے ساتھ چمکنے والا یہ ستارہ 27؍اپریل 2009کو ڈوب گیا۔ دراصل فیروز خان کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ کئی دہوں تک فلم انڈسٹری میں اپنے منفرد اسلوب اور علاحدہ شناخت سے ناظرین کا دل جیتنے والا اداکار اب اس جہان فانی سے کوچ کرگیا لیکن اس کی فن کاری اوراس کی ہدایت کاری میں بنائی گئی فلمیں ہمارے درمیان موجودہیں جو ہمیں فیروز خان کی یاد دلاتی رہیں گی۔
فلم کے متعدد شعبوں میں مہارت رکھنے والے ایسے انسان کا دنیا سے چلے جانا فلم انڈسٹری کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ فلم کے مختلف شعبوں سے وابستہ فیروز خان صرف ایک اداکار ہی نہیں تھے بلکہ ان کی اپنی الگ شناخت تھی، منفرد اسلوب تھا، جو انہیں دیگر فن کاروں سے ممتاز کرتا ہے اور اس انفرادیت کو انہوں نے تاحیات برقرار رکھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ فیروز خان نے اپنی آرزؤوں اور امنگوں کے ساتھ بھرپور زندگی بسرکی اور ہندوستانی سنیما کو اپنی اداکاری اور فن کاری کا بیش بہا خزانہ عطا کیا۔
(یو این آئی)